جمعہ کی صبح پاکستان بھر میں اہلِ تشیع حضرات کی جانب سے یومِ علیؑ کے جلوس نکالے گئے اور اس موقع پر کرونا وائرس کے حوالے سے تمام حفاظتی تدابیر کی دھجیاں بکھیر دی گئیں۔ ملک بھر میں یہ جلوس اپنے مقررہ رستوں سے ہوتے ہوئے اپنی اپنی منزلوں پر پہنچے اور اس موقع پر سوشل ڈسٹںسنگ نام کی کسی چیز کا کوئی لحاظ نہیں کیا گیا۔
اس سے قبل پاکستان میں تبلیغی جماعت اور وفاق المدارس کے علاوہ مفتی منیب الرحمان اور مفتی تقی عثمانی جیسے لوگوں پر بے شمار تنقید ہوتی رہی ہے کہ انہوں نے مساجد میں باجماعت نماز کے حوالے سے حکومت کے ساتھ کوئی تعاون نہیں کیا اور حکومت پر بھی یہ تنقید بارہا کی گئی ہے کہ وہ علما سے اپنی بات منوانے میں ناکام رہی ہے اور مساجد کو کرونا وائرس سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کرنے کے لئے راضی کرنے میں ناکام رہی ہے۔ حکومت کو بزورِ بازو ان مذہبی اجتماعات کو روکنے کا مشورہ بھی دیا گیا لیکن ایسا کچھ نہ ہو سکا۔
تاہم، اب شیعہ حضرات نے بھی بالکل اسی انداز میں یومِ علیؑ پر جلوس نکال کر ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ وہ مولا علیؑ جن کے علم اور دانش کا ڈنکا آج بھی چہار دانگ عالم بجتا ہے، ان کے ماننے اور چاہنے والوں نے دانشمندی چھوڑیے، ہوشمندی سے کام لینے کی کوشش بھی نہیں کی۔ ملک بھر میں اجتماعات ہوئے، عزاداری بھی جاری رہی، مجالس بھی منعقد ہوئیں اور حکومت اور علما ایک مرتبہ پھر اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام رہے۔
سندھ حکومت کی جانب سے اس پورے عرصے میں باقی تمام صوبوں اور وفاق کے مقابلے میں کہیں بہتر انتظامات دیکھنے میں آئے ہیں اور یومِ علیؑ کے موقع پر بھی سندھ حکومت ہی تھی جس نے جلوسوں پر پابندی عائد کی لیکن اس پابندی کو عوام نے ہوا میں اڑا دیا اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ سڑکوں پر آ گئے جس کے بعد حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے ان کو قابو میں رکھنا ناممکن ہو گیا۔
حیدر آباد میں سٹیشن روڈ پر سینکڑوں عزاداروں نے جلوس نکالا جب کہ ضلعی انتظامیہ نے گذشتہ شب ہی انجمنِ امامیہ سندھ کو متنبہ کر دیا تھا کہ جمعہ کو کرونا وائرس کے باعث جلوس نکالنے پر بھی پابندی ہوگی۔ انجمنِ امامیہ سندھ کے پاس گذشتہ کئی سالوں سے جلوس نکالنے کا اجازت نامہ موجود ہے لیکن اس سال اسے واضح الفاظ میں بتا دیا گیا تھا کہ جلوس نکالنا منع ہوگا۔
لیکن تنظیم کے جنرل سیکرٹری نے بعد ازاں پولیس پر ہی الزام لگا دیا کہ پولیس سے بات چیت میں یہ طے ہوا تھا کہ عزاداروں کو قدم گاہ مولا علیؑ جا کر مجلس کا اہتمام کرنے کی اجازت ہوگی لیکن اس معاہدے کے باوجود پولیس نے شرکا کو روکا۔
دوسری جانب ایس ایس پی عدیل چانڈیو کا کہنا تھا کہ تنظیم نے حکومت سے وعدہ کیا تھا کہ یہ مجلس قدم گاہ کے اندر منعقد کی جائے گی لیکن اس وعدے کی پاسداری نہ کی گئی اور اس کے بعد بالآخر پولیس نے 15 معلوم اور قریب 200 نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔
صحافی حسن زیدی نے بالکل درست تبصرہ کیا کہ مولا علیؑ سے اگر کوئی ایک چیز ان افراد تک نہیں پہنچی ہے تو وہ دانشمندی ہے۔ ملک بھر میں کرونا وائرس کے کیسز میں روزانہ ہزاروں کا اضافہ ہو رہا ہے۔ گذشتہ 15 روز میں 23 ہزار سے زائد کیسز سامنے آ چکے ہیں جب کہ ملک بھر میں اس مہلک وائرس سے مرنے والے افراد کی تعداد 834 ہو چکی ہے لیکن ان تمام حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے جلوس نکالے گئے۔
یہی طرزِ عمل اہل تشیع حضرات کا ایران میں بھی ابتداً رہا۔ ان کے رہنما اور رہبر تک کرونا وائرس کی شدت کو تسلیم کرنے میں ناکام رہے اور بالآخر جب ہزاروں کی تعداد میں کیسز سامنے آنے لگے اور ہزاروں اموات سامنے آئیں، تب جا کر زیارتوں پر پابندی لگائی گئی۔ پاکستان میں بھی جوّاد نقوی جیسے علما حضرات کرونا کو کافروں کی ایران کے خلاف سازش اور اس کی کابینہ کو قتل کرنے کی کوشش قرار دیتے رہے۔ اس سلسلے میں غلط بیانی اور مبالغے سے بھی کام لیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ وائرس امریکہ کے امیر ترین فرد نے برطانیہ میں بنا کر چین بھیجا جہاں سے یہ ایران پہنچا۔ یہ ویڈیو بھی نیا دور ٹی وی کے چینل پر موجود ہے۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آیت اللہ سیستانی جو کہ انتہائی محترم اہلِ تشیع عالمِ دین ہیں اور موجودہ ائمہ کرام میں بہت بلند مقام رکھتے ہیں نے ابتدا سے ہی اپنے ماننے والوں کو تلقین کی کہ وہ اس وبا سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کریں اور زیارتوں اور اجتماعات سے گریز کریں۔ لیکن پاکستانی شیعہ حضرات نے ان کی بھی نہ سنی۔
مذہب سے لگاؤ ہر مسلمان کو ہی ہوتا ہے لیکن اس کے زبردستی پرچار کے لئے کوئی منطق نہیں، خصوصاً جب دنیا بھر میں ایک مہلک وبا پھیلی ہوئی ہو اور لاکھوں لوگوں کی جانیں اس کی وجہ سے جا چکی ہوں۔
حکومت کو چاہیے کہ اس خودغرضی پر مبنی مذہبیت کی نمائش پر پابندی عائد کرے۔ اس سلسلے میں علما سے بات چیت کرے اور اگر بات چیت کے ذریعے مسئلہ حل نہیں ہوتا تو ریاست کو اپنی رٹ بحال کرنا ہوگی۔ مٹھی بھر انتہا پسندوں کی خاطر ملک کے کروڑوں معصول لوگوں کی جانوں کو خطرے میں نہیں ڈالا جا سکتا۔