وزیر اعلی عثمان بزدار ویسے تو اپنی شرافت اور سیدھے سادھی طبعیت کے حوالے سے جانے جاتے ہیں تاہم شوگر مافیا کو نوازنے کے معاملے میں انکا کردار انتہائی تیز طرار،'رولز آف دی گیم' کو توڑنے مروڑنے اور اس سے اپنے مطلب کا مکھن نکالنے والے سیاستدان کے طور پر سامنے آرہا ہے۔
دی نیوز میں شائع ہونے والی معروف صحافی انصار عباسی کی خبر کے مطابق وزیر اعلی' پنجاب عثمان بزدار نے شوگر مافیا کو 3 ارب کی سبسڈی دینے کے لئے بیوروکریسی کو بھی چکمہ دے کر آوٹ کلاس کردیا۔
خبر کے مطابق سبسڈی دینے کا عمل کابینہ سے منظوری سے گزر کر مکمل ہوتا ہے۔ تاہم عثمان بزدار نے اس وقت کے وزیر خوراک سمیع اللہ چوہدری کے ساتھ مل کر پہلے ہی طے کر لیا تھا کہ یہ سبسڈی شوگر ملوں دینی ہی دینی ہے۔ اس حوالے سے کابینہ کو ٹھپہ لگانے والی مہر کے طور پر استعمال کیا گیا۔ خبر میں دی گئی تفصیلات کے مطابق سیکریٹری خزانہ پنجاب اس سبسڈی کے خلاف تھے اور تین بار سبسڈی کے خلاف اپنی سمری چیف سیکریٹری کو بھجوا چکے تھے۔ وزیر اعلی' عثمان بزدار اس حقیقت سے واقف تھے اس لئے انہوں نے 29 دسمبر کو کابینہ کا اجلاس بہاولپور میں بلایا ۔ اجلاس کے ایجنڈہ میں چینی پر سبسڈی سے متعلق کوئی آئٹم نہ تھا۔ تاہم اجلاس کے دوران اچانک وزیر خوراک نے ترمیم کردہ ایجنڈے کا مسودہ وزیر اعلی' کے سامنے رکھا۔ جسے فوری ہی منظور کر لیا گیا اور ایسا کرتے ہوئے کسی کابینہ ممبر کو اس پر بحث یہاں تک کہ اس سے قبل ایجنڈے کی کاپی بھی دیکھانے کی بھی زحمت نہ کی گئی۔
انصار عباسی لکھتے ہیں کہ سیکریٹری فنانس پنجاب اس حرکت پر ششدر رہ گئے۔ انہوں نے اسی وقت چیف سیکریٹری کو صورتحال سے آگاہ کیا اور اجلاس میں اپنا نکتہ بیان کرنے کی اجازت چاہی جو کہ دے دی گئی۔ جس پر سیکریٹری فنانس نے سخت الفاظ میں اس سبسڈی کی مخالفت کرتے ہوئے اس کا مارکیٹوں پر اثر اور پنجاب کے خزانے پر پڑنے والے بوجھ سے آگاہ کیا۔ تاہم اسے منظور کر لیا گیا۔