دس سال قبل شانگلہ سے اغوا ہونے والے 16 مزدروں کی لاشیں پشاور سے برآمد

دس سال قبل شانگلہ سے اغوا ہونے والے 16 مزدروں کی لاشیں پشاور سے برآمد
خیبر پختونخوا کے ضلع کوہاٹ کے سب ڈویژن درہِ آدم خیل سے 2011 میں لاپتا ہونے والے کوئلے کی کان کے 16 مزدوروں کی لاشیں دور دراز پہاڑی سلسلے احسن خیل ضلع پشاور سے برآمد ہوئی ہیں۔

ان سب مزدوروں کا تعلق سوات کے علاقے شانگلہ سے ہے۔ یونین کونسل رانیال سے تعلق رکھنے والے پانچ لوگوں کا تعلق ایک ہی خاندان سے تھا جس میں دو سگے بھائی، ایک چچا اور دو آپس میں کزن تھے۔





ہلاک ہونے والوں میں ایک اور علاقے کے دو بھائی بھی شامل ہیں۔ جن میں ایک بھائی اس وقت ایف ایس سی کے طالب علم تھے۔




اگوڑی کے علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک ہلاک مزدور عمر زادہ کے چچا شمس اللہ اپنے بھتیجے کی لاش کی شناخت کے لیے درہ آدم خیال میں موجود تھے۔





بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے انکا کا کہنا تھا کہ یہ مزدور احتجاج کررہے ہیں۔





’میں ان سے کہتا ہوں کہ ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ دس سال بعد لاشیں تو مل گئی ہیں۔ اب کم از کم ہم ان کا جنازہ کریں گے۔ ان کو اچھے طریقے سے دفن کریں جس سے ان کے پیاروں کچھ سکون تو مل جائے گا۔‘





شمس اللہ کا کہنا تھا کہ ان 16 خاندانوں پر کیا بیت رہی تھی، اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ جب بھی کوئی عمر زادہ کے گھر کا دروازہ کھٹکاتا تھا تو اس کی ماں دوڑ کر جاتی تھی اور کہتی تھی کہ عمر زادہ سے متعلق کوئی اطلاع ہوگی۔





عمر زادہ کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ اب وہ بڑے ہوچکے ہیں۔ بیوی اور والدین کا حال تو بیان ہی نہیں ہوسکتا۔ یہ 16 لاشیں نہیں 16 خاندانوں سے جڑی ایسی المناک کہانیاں ہیں۔ جن کو سننا اور سنانا ممکن نہیں ہے۔




لیبر یونین کونسل کول مین چراٹ کے جنرل سیکرٹری نور اللہ یوسفزئی کا کہنا تھا کہ یہ مزدور فروری 2011 کو لاپتا ہوئے تھے۔ جس کے بعد ان کا کوئی بھی پتا نہیں چل سکا تھا۔ اس وقت سے اب تک ان کی تلاش جاری تھی۔





تحریک انصاف شانگلہ کے صدر وقار احمد کا کہنا تھا کہ اس وقت 32 مزدوروں کو دہشت گردوں نے اغوا کیا تھا جن میں سے 16 کسی نہ کسی طرح دشوار گزار راستوں سے فرار ہو کر واپس پہچنے میں کامیاب ہوگے تھے اور ان 16 مزدوروں نے واقعے کے متعلق بتایا تھا۔





دہشت گردوں کی جانب سے اغوا کیے گئے مزدوروں کے لیے تاوان بھی طلب کیا جاتا رہا تھا۔ ’میرا خیال ہے کہ وہ 60 لاکھ روپے مانگ رہے تھے۔ یہ تو مزدور لوگ تھے اتنی رقم ادا نہیں کرسکتے تھے۔‘





کوئلہ کانوں کے مالکان نے چندہ بھی کیا تھا۔ مگر اس کے بعد اچانک اغوا کرنے والوں کے ساتھ رابطے منقطع ہوگئے تھے۔ اس وقت دہشت گردی کے خلاف جنگ بھی جاری تھی جس بناء پر شاید اس وقت معاملات آگے نہیں چل سکے تھے۔ اب ان کی لاشیں بر آمد ہوئی ہیں۔





علی باش پاکستان سنٹرل مائن لیبر فیڈریشن صوبہ خیبر پختونخوا کے صدر ہیں۔ وہ بتاتے ہیں اغوا اور ہلاک ہونے والے مزدور درہ آدم خیل کے علاقے کال خیل میں مزدوری کرتے تھے۔ وہاں سے ان کو اغوا کیا گیا تھا۔ان کے لواحقین تلاش جاری رکھے ہوئے تھے۔





ان کا کہنا تھا کہ ان کی لاشیں انتہائی دور دراز علاقے سے نکال کر لائے ہیں۔


مزدوروں کی مختلف تنظیموں اور لواحقین نے درہ آدم خیل کے علاقے میں انڈس ہائی وے پر لاشوں کے تابوتوں کو روڈ پر رکھ کر احتجاج کیا تھا جس دوران پولیس کے ساتھ ہاتھا پائی کے علاوہ دیگر واقعات بھی ہوئے تھے۔




احتجاج رات نو بجے شروع ہوا اور تقریباً دو بجے ڈیرہ اسماعیل خان کو پشاور سے ملانے والا بین الاضلاعی اور انتہائی مصروف ہائی وے بلاک رہی تھی۔ جس سے گاڑیوں کی لمبی لائنیں لگ چکی تھیں۔





احتجاج مذاکرات کی کامیابی کے بعد ختم کیا گیا تھا۔ مذاکرات میں شریک نور اللہ یوسفزئی کے مطابق مذاکرات میں وزیر اعلیٰ کے مشیر ضیاء اللہ بنگش شریک ہوئے تھے جبکہ شانگلہ ہی سے منتخب ممبر صوبائی اسمبلی اور وزیر شوکت اللہ یوسفزئی کے علاوہ دیگر روڈ بلاک ہونے کی وجہ سے نہیں پہنچ سکے تھے۔





نور اللہ یوسفزئی کے مطابق مذاکرات میں اُن کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے گئے ہیں جس میں لواحقین کے لیے فی کس 26 لاکھ روپے امداد شامل ہے۔ اس کا اعلان ضیاء اللہ بنگش نے موقع پر کیا ہے جبکہ متاثرہ خاندانوں کے ایک فرد کے لیے سرکاری ملازمت کا سرکاری اعلان کرنے کے لیے انھوں نے وقت مانگا ہے۔





ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح صوبہ خیبر پختونخوا میں کام کے دوران ہلاک ہونے والے مزدوروں کی امدادی رقم کو تین لاکھ سے بڑھا کر پورے ملک کی طرح پانچ لاکھ روپے کرنے کا بھی مطالبہ تسلیم ہوا ہے۔





نور اللہ یوسفزئی کے مطابق قاتلوں کی تلاش کے لیے جی آئی ٹی بنانے کا مطالبہ بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ جس کے بعد احتجاج ختم کیا گیا ہے۔





سولہ مزدوروں کی لاشوں پر قانونی کاروائی کی تفصیلات حاصل کرنے کے لیے بی بی سی کے ضلع کوہاٹ اور پشاور پولیس سے رابطے قائم نہیں ہوئے۔ اس طرح ضیاء اللہ بنگش سے بھی رابطہ ممکن نہیں ہوسکا۔


بشکریہ: بی بی سی اردو