سعودی عرب نے ملک سے غداری اور دشمن سے تعاون کے الزام میں 3 فوجیوں کی سزائے موت پر عمل درآمد کروادیا۔
سعودی عرب کی وزارت دفاع کی جانب سے ایک جاری بیان میں کہا گیا کہ سعودی عرب نے 'سنگین غداری' اور 'دشمن سے تعاون' پر ہفتے کے روز 3 فوجیوں کو پھانسی دے دی۔
اس میں کہا گیا کہ ان تینوں کو منصفانہ اور شفاف انداز میں مقدمے کی سماعت کے بعد ایک خصوصی عدالت نے سزائے موت سنائی۔
وزارت دفاع نے مبینہ 'دشمن' کا نام نہیں لیا لیکن یہ سزائے موت یمن کی سرحد سے ملحقہ جنوبی صوبے میں دی گئیں جہاں سعودی عرب حوثی باغیوں کے خلاف گزشتہ 6 سال سے برسر پیکار ہے۔
استنبول کے سعودی قونصل خانے میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل اور خواتین کے حقوق کی کارکنوں کی نظربندی کے بعد سے بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیمیں سعودی عرب میں سزائے موت کے ریکارڈ کی جانچ کررہی ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت انسانی حقوق گروپوں نے تشدد اور غیرمنصفانہ مقدمات کا حوالہ دیتے ہوئے سعودی عرب سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ سزائے موت پر عمل درآمد کو روکیں۔
تاہم عالمی اداروں کی جانب سے عائد کردہ غیر منصفانہ مقدمات کے الزامات کی سعودی عرب تردید کرتا رہا ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن کے مطابق سعودی عرب نے 2020 میں 27 افراد کو پھانسی دی جو کئی سالوں بعد ایک سال میں دی گئی پھانسیوں کی سب سے کم تعداد ہے تاہم اس کی وجہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ سے عائد کی گئی بندشوں کو قرار دیا گیا۔
سعودی عرب نے 2019 میں 185 مجرمان کی سزائے موت پر عمل درآمد کروایا تھا۔