Get Alerts

افواج پاکستان ہتک بل کےایک ملزم کی عدالت خوابیہ میں سماعت

افواج پاکستان ہتک بل کےایک ملزم کی عدالت خوابیہ میں سماعت
کیا جرم ہے اس کا؟
جنابِ عالی! اس نے فوج کی شان میں گستاخی کی ہے۔
کیا گستاخی کی ہے؟
جنابِ عالی! اس نے تمسخر اڑاتی ٹوئیٹ لکھی ہے۔
کیا ٹوئیٹ لکھی ہے اس نے؟
جنابِ عالی! یہ کہتا ہے کہ "جب 74 سال میں کشمیر آزاد نہیں کروا سکتے تو اتنا بجٹ کیا گانے ریلیز کرنے کے لیے لیتے ہو؟"
‏ہاں بھئی! کیا یہ تمہاری ٹوئیٹ ہے؟
جی جناب!
کیا تم جانتے ہو کہ تنقید کرنے اور تمسخر اڑانے کی سزا کیا ہے؟
جی جناب! لیکن میں نے تو بس سوال پوچھا۔
جنابِ عالی! اس نے سوال کے پردے میں تمسخر اڑانے کی کوشش کی ہے؟
وہ کیسے؟
جنابِ عالی! یہ فوج پر تنقید کر رہا ہے۔
یہی تو پوچھا کہ وہ کیسے؟

‏جنابِ عالی! یہ کہہ رہا ہے کہ فوج بجٹ لے کر صرف گانے ریلیز کرتی ہے لیکن کشمیر آزاد نہیں کرواتی.
کیا کشمیر آزاد ہو گیا ہے؟
نہیں جناب!
کیا فوج بجٹ نہیں لیتی؟
لیتی ہے جناب!
تو پھر غلط کیا ہے؟
جنابِ عالی! فوج ایک محبِ وطن ادارہ ہے اس سے ایسے سوال پوچھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی.
‏یعنی آپ کہنا چاہتے ہیں کہ فوج کشمیر کے نام پر بجٹ لے کر بےشک گانے ریلیز کرے لیکن فوج سے پوچھا نہیں جا سکتا؟
جی جنابِ عالی!
کیا آپ صحتِ جرم قبول کرتے ہیں؟
سر! آئندہ نہیں پوچھوں گا؛ اس دفعہ معاف کر دیں۔
کیا آپ اپنا جرم قبول کرتے ہیں؟
غلطی ہو گئی جناب! آئندہ نہیں پوچھوں گا کہ ‏بجٹ لے کر کشمیر کیوں آزاد نہیں کرواتے؟
آپ کیا کہتے ہیں؟
جنابِ عالی! یہ عادی مجرم ہے اور پہلے بھی ایسی کئی ٹوئیٹس کر چکا ہے؛ اسے سزا ضرور دی جانی چاہیے تاکہ اس سمیت فوج کے خلاف بولنے والوں کو سبق حاصل ہو۔
مینوں معاف کر دیو جناب! آئندہ سوال نہیں کراں گا پاویں تسی کشمیر آزاد نہ کرو،

‏بےشک مزید بنگلہ دیش بنا دیو، میری توبہ میں نہیں پوچھدا سیاچین نال کی کیتا؟ میرے ماں باپ دی توبہ جو پچھاں کارگل کیوں کیتا؟میں نہیں پچھاں گا کہ آئین کیوں توڑدے او؟جناب مینوں معافی دے دیو میں نہیں کہندا تسی بکسے چوری کیتے،میں نہیں کہندا کشمیر ویچ چھڈیا،‏میری توبہ جو کسے کاروبار دا ذکر چھیڑاں،میں نہیں پوچھدا بیرون ملک اثاثے کس طرح بنے؟ سر جی! مینوں معاف کر دیو میں نہیں سوال کراں گا، میں کدی سوال نہیں کراں گا!

اور پھر ۔۔۔

آنکھ کھل گئی۔

نوٹ: خوابوں کے بارے میں مشتاقیہ خانوادہ کے چشم و چراغ مولانا احمد مشتاق بہاولپوریہ رحمہ کہ برانچ جن کی کراچی ملیر میں بھی ہے، کہہ گئے ہیں کہ یہ دراصل منجانب الہیٰ انسان کی دوران نیند بوریت بھگانے کا سامان ہیں۔ اب چونکہ یہ بھی ایک خواب کا احوال ہی ضبط تحریر کیا گیا ہے اس لیئے اس  کو حظ طبع کے علاوہ کسی اور مصرف میں لانے پر جو مضر اثرات آپ کی جسمانی، ذہنی و روحانی کیفیت پر پڑیں گے اس کا مصنف بالکل بھی ذمہ دار نہ ہوگا۔

مصںف پیشہ کے اعتبار سے کسان اور معلم ہیں۔ آرگینک اگریکلچر  کے ساتھ ساتھ لائیو سٹاک کے شعبہ میں کام کرتے ہیں۔  ایک نجی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں اور عرصہ 20 سال سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے منسلک ہیں۔ کرئیر کی ابتدا ریڈیو پاکستان لاہور سے بطور ڈرامہ نگار کی جسکے بعد پی ٹی وی اور parallel theater کے لئیے بھی لکھتے رہے ہیں۔