گذشتہ چند دنوں سے پاکستان کے سوشل میڈیائی میدان جنگ میں شدید جھڑپیں جاری ہیں اور اس بار کشیدگی کی وجہ صبا قمر اور بلال سعید کا ایک مختصر سا کلپ تھا جس میں وہ دونوں رقص سے مخصوص ایک پوز میں ہیں اور گھوم رہے ہیں۔ یہ کلپ دراصل بلال سعید کے گانے قبول ہے کے بیہائنڈ دی سین کا حصہ تھا جسے پروڈکشن کریو نے خود ہی شیئر کیا تھا۔ شئیر ہونے کے بعد کچھ ہی وقت میں یہ کلپ وائرل ہو گیا اور وہ بھی مذہبی توہین کے الزامات کے تحت۔ سوشل میڈیا پر ہر طرف سے یلغار شروع ہوئی۔ اس کلپ کو ایک مسجد کی توہین قرار دیا گیا اور ان اداکاروں اور ان سے متعلقہ تمام افراد کو سخت سے سخت سزا دینے کے مطالبے سوشل میڈیا پر زبان زد عام ہو گئے۔
تاہم، کچھ نحیف، کچھ مضبوط آوازیں دونوں اداکاروں کے حق میں بھی اٹھیں۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق صبا قمر اور بلال سعید اللہ کی بارگاہ اور عوام کے ہاں معافی مانگ چکے ہیں اور اسے اپنی غیر دانستہ غلطی قرار دیتے ہوئے معافی مانگ چکے ہیں۔ جب کہ محکمہ اوقاف کے دو افسران معطل ہوئے ہیں۔ جن میں سے ایک مسجد وزیر خان کے مینجر بھی ہیں۔
اس حوالے سے اہم یہ ہے کہ بلال سعید کی جانب سے یہ وضاحت دی گئی ہے کہ اس کلپ کے لئے یا گانے کے اس سیکیوئل کی شوٹنگ کے لئے کسی قسم کا میوزک نہیں بجایا گیا۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے بتایا ہے کہ یہ صرف ایک نکاح کا سین تھا جیسے کہ کئی نکاح کی تقریبات بھاری فیسوں کے عوض وزیر خان مسجد سمیت دیگر تاریخی مساجد میں منعقد ہوتی ہیں۔
مگر سوشل میڈیا کا پارہ ہے کہ نیچے آنے کو تیار نہیں۔ معاشرے کی شدت پسندی کا عفریت ایک بار پھر اپنی نار شکم بجھانے کو پھنکار رہا ہے۔
اسے توہین کا ایک اقدام قرار دیا جا رہا ہے۔ اور نشانہ دو اداکار ہیں۔ کوئی یہ سوال پوچھنے کا روادار نہیں کہ وزیر خان مسجد محکمہ اوقاف کے زیر انتظام ہے جو نکاح کی تقریب، فوٹو شوٹ یا کسی بھی شوٹنگ کی بھاری بھرکم فیس چارج کرتے ہیں۔ اور جو اجازت نامہ دیا جاتا ہے اس کے قوانین میں درج ہے کہ نازیبا حرکات، لباس اور میوزک وغیرہ پر پابندی ہے۔ جیسا کہ دیکھا بھی جا سکتا ہے کہ ان تینوں میں سے کوئی بھی امر وہاں نہیں تھا۔ تو پھر یہ صرف ایک خالی نکاح کی تقریب رہ جاتی ہے۔ جو کہ ان مساجد کی کمائی کا بڑا ذریعہ ہیں تو پھر واویلہ کیوں؟ پاکستان کا کون سا ایسا کونا نہیں کہ جہاں کسی صاحب استطاعت کی شادی ہو اور وہ بادشاہی مسجد یا اس کے ہم پلہ تاریخی مساجد میں صوفی نکاح شوٹ کے لئے نہ آئے یا پھر ہزاروں سے لاکھوں دے کر نکاح بھی ان ہی مساجد میں کرنے کی کوشش نہ کرے۔ گو کہ حال ہی میں بادشاہی مسجد نے ان شوٹس پر ٹیکنیکل قسم کی پابندی عائد کی ہے لیکن اس شوٹ میں شادی شدہ جوڑوں میں قربت کی منظر کشی سے لے کر ہر فلمی پوز شوٹ کیا جاتا رہا ہے اور اس سے حاصل ہونے والی آمدن اگر بد گمانی نہ بھی کی جائے تو محکمہ کے یہاں ہی جاتی ہے۔ وہ علیحدہ بات ہے کہ بد عنوانیوں کے کئی سکینڈل مساجد اور مزارات کے متولی محکمہ اوقاف سے بھی جڑے ہیں۔
دنیا بھر میں اگر دیکھا جائے تو بڑے چھوٹے چرچز، سیناگاگز، مندروں اور گوردواروں میں فلموں کی باقاعدہ شوٹنگ ہوتی ہے اور اس عمل کو متعلقہ ممالک کے محکمہ ٹورزم و کلچر مزید سہولت یاب کرتے ہیں تاکہ ان کے ملک کا سافٹ اور ان کا کلچرل امیج دنیا بھر تک جائے۔ اسی وزیر خان مسجد میں فلم خدا کے لئے کے سین بھی شوٹ ہو چکے ہیں لیکن تب شاید ریاست کو کچھ اور منظور تھا۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستان جہاں تاریخی اعتبار سے شاندار مساجد موجود ہیں اور مسجد اور معاشرے کا ایک اٹوٹ رشتہ بھی وہاں مساجد اور مدرسوں سے متعلق خود کش بمباروں اور بچوں سے زیادتی کرنے والے مولویوں کی داستانیں ہی ریکارڈ کا حصہ بنتی ہیں۔ کیونکہ بطور قوم ان حرکات قبیحہ میں ہمیں مسجد و منبر کی نہ تو توہین نظر آتی ہے اور نہ ہی اس پر پابندی کے مطالبے کی ضرورت ہم محسوس کرتے ہیں۔ پھر سب سے بڑھ کر جیسے ہم نے مساجد کے معاشرے میں وسیع تر کردار کو صرف عبادات تک محدود کر کے مختلف معاشرتی حصوں کو ایک دوسرے سے باہم متصادم بنا دیا ہے بجائے اس کے کہ ثقافت و فنون لطیفہ سمیت دیگر معاشرتی جہتوں کو اس سے باہم متصل کرتے۔ جیسا کہ کبھی مدینہ کی ریاست میں والی ریاست سرور کونین حضور اکرم ص کے دور میں ہوا کرتی تھی جس کا ہلکا سا رنگ حضور کی اس حدیث میں ہی جھلکتا ہے جسے ترمذی نے ہی سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان نقل کیا ہے:
’’اس نکاح کا اعلان کیا کرو اور یہ مسجدوں میں کیا کرو اور اس پر دف بجایا کرو‘‘۔
اگر وسیع تر مطالعہ اور اسلام کے احکامات کو سیاسی رنگ دینے کی بجائے درست انداز میں پڑھا اور سمجھا جائے تو پھر ہی شائد ۔۔۔ توہین کے علاوہ کوئی ذہین بات ہو۔