Get Alerts

بین الاقوامی میڈیا پر آنیوالے مبینہ سائفر  کی تحقیقات ہونی چاہیے: رانا ثنااللہ

رانا ثنا اللّٰہ نے کہا کہ یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ سائفر کی کاپی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے پاس تھی جو انہوں نے واپس بھی نہیں کی۔ سابق وزیراعظم یہ بات بھی ریکارڈ پر کہہ چکے ہیں کہ ان سے وہ سائفر کاپی گم ہوگئی ہے۔

بین الاقوامی میڈیا پر آنیوالے مبینہ سائفر  کی تحقیقات ہونی چاہیے: رانا ثنااللہ

مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وزیر داخلہ رانا ثنا اللّٰہ نے بین الاقوامی میڈیا پر سامنے آنے والے مبینہ سائفر  کی تصدیق کے لیے تحقیقات ہونی چاہیے۔ سائفر کے معاملے میں عمران خان قصور وار نکلے تو ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔

رانا ثنا اللّٰہ نے اپنے ٹویٹر بیان میں نے کہا کہ بظاہر یہ کام بہت شر انگیز ہے. یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ سائفر کی کاپی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے پاس تھی جو انہوں نے واپس بھی نہیں کی۔ سابق وزیراعظم یہ بات بھی ریکارڈ پر کہہ چکے ہیں کہ ان سے وہ سائفر کاپی گم ہوگئی ہے۔

سابق وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ عالمی میڈیا پر سامنے آنے والے امریکی سائفر کی تصدیق کے لیے تحقیقات کی جائیں۔ اگر چیئرمین پی ٹی آئی اس سلسلے میں قصور وار ثابت ہوتے ہیں تو ان کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔

اس سے قبل ترجمان امریکی محکمہ خارجہ میتھیو ملر کا بیان سامنے آیا ہے۔ ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا تھا کہ کہ سفارتی سائفر کے مبینہ متن سے ثابت ہوگیا کہ چیئرمین تحریک انصاف اور سابق پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے خلاف کوئی سازش نہیں ہوئی تھی۔

واشنگٹن میں ترجمان امریکی محکمہ خارجہ میتھیوملرنے پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ میں اس دستاویز کے مصدقہ ہونے پر بات نہیں کر سکتا۔ اگر جن باتوں کے بارے میں رپورٹ کی گئی وہ 100 فیصد بھی درست تھیں تو وہ کسی بھی طرح سے یہ ظاہر نہیں کرتیں کہ امریکا نے یہ موقف اختیار کیا ہو کہ پاکستان میں قیادت کس رہنما کے پاس ہونی چاہیے۔

ترجمان امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ امریکا نے پاکستان کے ساتھ نجی اور سرکاری سطح پر سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے روس کی یوکرین پر چڑھائی کے دن ماسکو کا دورہ کرنے پر اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا لیکن اس وقت امریکا میں تعینات پاکستان کے سابق سفیرکہہ چکے کہ یہ الزامات درست نہیں، الزامات جھوٹے ہیں ۔پاکستانی سفارتکاروں کیساتھ ہونے والی نجی گفتگو سے متعلق بات نہیں کرسکتا۔

میتھیو ملر کا کہنا تھا کہ اس مراسلے میں موجود باتوں کو اگر سیاق و سباق کے ساتھ دیکھا جائے تو ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی حکومت پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے پالیسی کے حوالے سے انتخاب پر اپنے خدشے کا اظہار کر رہی ہے اور نہ کہ وہ اس بارے میں اپنی ترجیح بیان کر رہی ہے کہ پاکستان کا لیڈر کسے ہونا چاہیے۔

انہوں  نے کہا کہ سائفر کی بنیاد بننے والی پاکستانی سفیر سے امریکی وزارتِ خارجہ کے افسر کی گفتگو میں امریکی اہلکار کی باتوں کو سیاق و سباق سے ہٹ کر سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔

واضح رہے کہ امریکی ویب سائٹ دی انٹرسیپٹ نے سائفر کے متن کو شائع کرتے ہوئے خبر میں لکھا کہ اس سائفر سے چیئرمین پی ٹی آئی کی حکومت کو گرانے کے پیچھے امریکی دباؤ کارفرما نظر آتا ہے کیونکہ امریکی سفارت کار نے یہ بیان دیا تھا کہ اگر عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی تو سب کچھ معاف کردیا جائے گا۔

دی انٹرسیپٹ کے مطابق امریکی دفتر خارجہ نے روس یوکرائن جنگ کے معاملے پر چیئرمین پی ٹی آئی کی حکومت کو گرانے کی حمایت کی تھی۔

رپورٹ کے مطابق یوکرائن پر حملے کے بعد وزیراعظم کی جانب سے روس کا دورہ کرنے پر امریکا ناراض ہوگیا تھا۔ سائفر سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ امریکا نے چیئرمین پی ٹی آئی کی حکومت کو گرانے پر تعلقات میں بہتری کا وعدہ کیا اور نہ ہٹانے پر تنہا کرنے کی دھمکی دی۔

امریکا میں سابق پاکستانی سفیر اسد مجید نے اسلام آباد میں دفتر خارجہ کو سفارتی مراسلہ ارسال کیا تھا۔ جس کے بارے میں چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ اس میں ان کی حکومت کے خلاف امریکی سازش کا ذکر ہے۔