Get Alerts

اقلیتوں کے قومی دن پر منعقد کنونشن میں اقلیتوں نے برابر حقوق دینے کا مطالبہ کر دیا 

ادارہ برائے سماجی انصاف کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پیٹر جیکب نے کہا کہ قومی اسمبلی نے قومی کمیشن برائے اقلیتی بل ( 2023) میں موجود خلا کو دور کیے بغیر منظور کر لیا۔ سینیٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بل میں ترامیم متعارف کرائے تاکہ حقیقی معنوں میں فعال، موثر، آزاد، خود مختار، اور  باوسائل  اقلیتی حقوق کے  ادارے کا قیام ممکن ہو۔

اقلیتوں کے قومی دن پر منعقد کنونشن میں اقلیتوں نے برابر حقوق دینے کا مطالبہ کر دیا 

سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشوروں میں اقلیتو ںسے کے گئے وعدوں پر 'وفائوں کا تقاضا ہے' کے عنوان سے لاہور کے نجی ہوٹل میں کنونشن کا انعقاد کیا گیا۔ کنونشن کے مقررین نے اقلیتوں کے قومی دن کی مناسبت سے پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں کو برابر شہری حقوق دینے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ آج تک کی تمام حکومتوں نے اقلیتوں کے ساتھ کئے گئے وعدے پورے نہیں کئے جبکہ ادارہ برائے سماجی انصاف اور انسانی حقوق کے علمبردار افراد اقلیتوں کے حقوق کیلئے آواز اٹھاتے رہیں گے۔کنونشن میں انسانی حقوق کیلئے آواز اٹھانے والے وکلاء، صحافیوں، سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سمیت اقلیتوں کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔

چیئرپرسن ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان حنا جیلانی نے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ ضروری ہے کہ ایسے دن کی اہمیت اجاگر کی جائے، اس وقت بہت سے کام عملی طورپر کرنے کی ضرورت ہے، جب کسی کی زبان بندی کرنا ہو، قانون کے ذریعے ذمہ دار بنانا ہو ، توہین کا الزام لگانا ہو تو نظریہ پاکستان بڑی جلدی آ جاتا ہے، کوئی نظریہ پاکستان کی اساس کو سمجھتا ہی نہیں ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ چونکہ ہم مسلمان تھے اس لئے ہم نے پاکستان بنایا، نظریہ پاکستان تب ہی ہو سکتا ہے جب اقلیتوں کا تحفظ ہو گا۔نظریہ پاکستان کی یہی ایک تعریف ہے باقی ساری بکواس ہیں۔ یکساں نصاب تعلیم طالبان کو خوش کرنے کیلئے بنایا گیا، یہ اس حکومت نے بنایا جو 40 ہزار طالبان اپنے ساتھ لیکر آئی تھی۔ چائلڈ میرج کا قانون پنجاب میں پیش ہوا تو کیوں منظور نہیں ہوا، غیر مسلم کمسن کی جبری مذہب تبدیلی، شادیوں کے معاملے پر عدالتیں وضاحتیں ڈھونڈتی ہیں۔ جبری شادیوں کے معاملے پر ڈیٹا اکٹھا کرنے کا اپنی ٹیم کو کہہ دیا ہے اور ہم عدالت سے بھی رجوع کریں گے۔

چیئرمین ادارہ برائے سماجی انصاف وجاہت مسعود نے کنونشن میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اگر اسلام کی روشنی صرف کمسن ہندو بچیوں تک پہنچ رہی ہوں اور باقی لڑکیوں تک نہ پہنچ رہی ہو تو پھر سوچنے کی ضرورت ہے۔ حقوق اور انصاف کی لڑائی کامیابی کی ضمانت لیکر نہیں لڑی جاتی، ہم پیپلزپارٹی کے مشکور ہیں کہ یوسف رضا گیلانی نے 11 اگست 2009 کو اقلیتوں کیلئے دن مقرر کیا تھا مگر ہمارا مطالبہ اس سے کچھ زیادہ ہے۔ ہمارا مطالبہ شہریت کی برابری ، ریاستی غیر جانبداری کا ہے۔ انتہا پسند تنظیموں نے احمدیوں کی عبادت گاہوں پر حملوں کا سلسلہ بڑھا دیا ہے، رانا ثناءاللہ انتہا پسندوں کیساتھ آئندہ الیکشن کیلئے اتحاد کرنا چاہتے ہیں جو آئندہ انتخابات کیلئے اچھا عندیہ نہیں ہے،انتہا پسندوں کے سامنے کھڑا ہونا دل گردے کا کام ہوتا ہے۔ مذہبی انتہا پسندوں سے ڈر کر کی گئی قانون سازی کو واپس لینا بہت مشکل ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک کروڑاقلیتوں کو بے آواز کیا گیا ہے پاکستان تب تک مکمل نہیں ہوتا جب ان ایک کروڑ لوگوں کو شہریت کی برابری نہیں دی جاتی۔

معروف صحافی بے نظیر شاہ نے کنونشن میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں کوئی بھی ایسی سیاسی جماعت نہیں ہے جس کو یہ سمجھ ہو کہ اقلیتوں کے مطالبات کیا ہیں، اور اگر سمجھ ہے بھی تو وہ اس پر کام کرنا نہیں چاہتے،پی ٹی آئی نے یکساں تعلیمی نصاب میں اسلامی مواد اتنا بڑھا دیا جو اقلیتوں پر بھی لاگو کر دیا گیا، جب 13 سیاسی جماعتوں کی حکومت آئی تو انہوں نے دعوی کیا کہ وہ اس یکساں نصاب کو ختم کریں لیکن کوئی عمل اقدام نہیں اٹھایا گیا، جب انتہا پسند جماعتیں سڑکوں پر آتی ہیںتو ان کے مطالبات کو تسلیم کر لیا جاتا ہے یہ وہی جماعت ہے جو نفرت پھیلاتی ہے، خاص طور احمدی کمیونٹی کیخلاف کارروائیاں ہو رہی ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ آج کل میثاق جمہوریت کی باتیں ہو رہی ہیں تو اس میں اقلیتوں اور خواتین کی آوازوں کو سنا جائے گا۔

سندھ سے خاتون صحافی وینگس نے اقلیتوں کے قومی دن کی مناسبت سے منعقدہ کنونشن میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی جبری مذہب تبدیلی کی بات ہوتی ہے تو ہم سندھ میں آواز اٹھاتے تھے، پنجاب میں بات تھوڑی دیر بعد سمجھ آتی ہے، سندھ میں شرم کی بات ہے کہ بچیوں کو اٹھایا جاتا ہے، جبری مذہب تبدیلی کیخلاف آواز اٹھائی تو تعلیم یافتہ طبقات نے ہم پر تنقید کی جاتی ہے، کہا جاتا ہے کہ تو اس لڑکی کی اپنی مرضی ہے، خاتون صحافی نے نشاندہی کی کہ وہ 2011ء سے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے آواز اٹھا رہی ہیں، انہوں نے سوال کیا کہ 11 سالہ بچی کو عمر کوٹ سے اٹھایا جاتا ہے تو کیا اسکی اپنی مرضی تھی؟ نواب شاہ میں بچی کو پکنک منانے سے واپس آتے ہوئے اٹھا لیا گیا، یہاں بچیاں ایسے اغواء ہو رہی ہیں جیسے بکریاں اغواء ہورہی ہوں، انہوں نے حکمرانوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی بکری اغواء ہو تو مقدمہ درج ہو جاتا مگر یہاں بچی اغواء ہو جائے تو مقدمہ تک درج نہیں ہوتا، خاتون صحافی نے کہا کہ 2013ء سے لیکر سندھ حکومت نے وعدہ کیا ہوا ہے کہ جبری مذہب تبدیلی پر قانون بنایا جائے گا۔ صحافی وینگس نے کہا کہ چندا مہاراج کا کیس ایسا کیس تھا جس پر مجھے اپنے آپ پر شرم آتی ہے لیکن اس بچی کو ہم انصاف نہیں دے سکے، اسکی ماں حیدر آباد تک عدالت جاتی تھی وہ بچی ثابت ہوا کہ وہ کمسن تھی، پھر کہا گیا کہ وہ بچی اسکی اپنی نہیں ہے،کیا اب اس کا ڈی این اے کیا جائے؟ خاتون جج تھی اسکے باوجود اس کی والدہ کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا۔ انہوں نے مزید تنقید کرتے ہوئے سوال کیا کہ اگر یہی کیسز انڈیا میں ہوتے، اگر مسلم لڑکی کا جبر سے مذہب تبدیل کروایا جاتا تو آپ خبریں بھی چلاتے، یوٹیوبرز بھی آجاتے، ڈی پیز بھی تبدیل ہوتیں،انہوں نے کہا کہ درحقیقت حکومت اقلیتوں کو اپنا سمجھتی ہی نہیں، خاتون صحافی نے کنونشن میں اظہار خیال کرتے ہوئے دعوی کیا کہ جامعہ بنوریا سمیت دیگر کی طرف سے روزانہ مذہب تبدیلی کی تعداد بتائی جاتی ہے، جب پریس کانفرنس ہوتی ہے تو انکے پاس گنز ہوتی ہیں ، کیا یہ آزاد مرضی ہوتی ہے، صحافی تک ڈرے ہوئے ہوتے ہیں،لڑکیوں کو حاملہ کر کے جناح ہسپتال میں چھوڑ دیا جاتا ہے، 

پھر بھی آپ کہیں کہ ریاست اس میں غیر سنجیدہ کیوں ہے،مذہبی جماعتیں کہتی ہیں کہ اقلیتوں کیلئے بل اسلام کیخلاف ہے،آپ کی بیٹی کسی 50 سالہ کیساتھ جبری مذہب تبدیل کروا دیا جائے تو پھر میں پوچھوں گی کہ کیا یہ آزاد مرضی ہے؟خاتون صحافی نے مزید کہا کہ ہم تو آپ کے آئین کی پابندی کرتے ہیں آپ ہمارے حقوق کا تحفظ کیوں نہیں کرتے؟ریاست کی ناک کے نیچے جب پیر سرہندی، جامعہ بنوریہ اور میاں مٹھو چاہیں چاہیں کسی کے بھی مذہب کو تبدیل کر دیں گے۔پاکستان میں کہا جاتا تھا کہ بھٹو کو مارو اور بھٹو پر الزام لگا دو، خاتون صحافی نے کہا کہ میں کہتی ہوں ہندو کو مارو اور ہندو پرہی الزام لگا دو،حقیقی و خالص سندھی قتل نہیں کر سکتا۔

ثاقب جیلانی ایڈووکیٹ نے کنونشن نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ جیلانی ججمنٹ میں وفاقی حکومت کو مذہبی رواداری کے لائحہ عمل پر ٹاسک فورس بنانے کا فیصلہ دیا گیا تھا مگر بدقسمتی سے اس فیصلے کے بعد کوئی خاطر خواہ عمل درآمد نہیں ہو سکااور عمل درآمد بنچ بھی تشکیل نہیں دیا جا سکا، انہوں نے مزید کہا کہ 2019ء میں اس فیصلے پر عمل کیلئے درخواست دائر کی جس پر ون مین کمیشن تشکیل دیا گیااور 2019ء سے اب تک ادارہ برائے سماجی انصاف کی معاونت سے کافی حد تک کچھ مثبت چیزیں ہوئی ہیں مگر کچھ چیلنجز بھی ہیں،ثاقب جیلانی ایڈووکیٹ نے حکومتوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے کو 9 سال ہو گئے ہیں اور وفاقی حکومت نے جو ٹاسک فورس بنائی وہ با اختیا ر نہیں اور اسکے اقدامات سے متعلق کوئی اطلاع بھی نہیں ملتی، انہوں نے یکساں نظام تعلیم سے متعلق کہا کہ نصاب کی کتب میں ہندوئوں، سکھوں اور دیگر اقلیتوں کیخلاف کافی حد تک نکالا جا چکا ہے۔مگر یکساں نصاب میں کچھ ایسی چیزیں ہیں جو اقلیتوں کیلئے بھی لازمی قرار دی گئی جو صرف مسلمانوں کیلئے ہونی چاہئیں، ایسا اقدام آرٹیکل 22 کی خلاف ورزی ہے۔ثاقب جیلانی ایڈووکیٹ نےاقلیتوں کے حقوق پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ احمدی کمیونٹی کیخلاف اسی قانون کے تحت مقدمات درج کروائے جا رہے ہیں جس نے انہیں تحفظ دینا تھا، انہوں نے مطالبہ کیا کہ کنونشن میں شریک خاتون صحافی بنگس نے بتائی ہیں انہیں سپریم کورٹ تک لیکر جانا چاہئے۔معاشرے کو بھی انفرادی سطح پر اس بات کا ادراک کرنا پڑے سوچنا پڑے گا اسی کے بعد ہی اقلیتوں کے بارے سوچ تبدیل ہو گا۔

سردار کلیان سنگھ کلیان نے اقلیتوں کے قومی دن پر منعقد کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اقلیتوں کے حقوق کیلئے ریاست کلیم اللہ اور سلیم اللہ والی بات ہو رہی ہے، کلیم اللہ اور سلیم اللہ کبھی کبھی گول بھی کر دیا کرتے تھے،یہ بات ہماری بیورو کریسی کو بتانے کی ضرورت ہے، انہوں نے سوال کیا کہ یکساں نصاب تعلیم میں اسلامیات کی جگہ اقلیتوں کیلئے کیا شامل کیا گیا ہے؟انہوں نے نشاندہی کی کہ یونیورسٹیوں کے پاس اقلیتوں کا دو فیصد کوٹہ ہوتا ہے اس کے لئے بھی ہر بار یونیورسٹی کو بتانا پڑتا ہے کہ ہمارا دو فیصد کوٹہ ہے اس پر بھی ہمیں کہا جاتا ہے کہ ٹیسٹ پاس کریں۔ پاکستان میں بسنے والی اقلیتی طلباء کیلئے مستقبل میں دشواریاں آ رہی ہیں، انہوں نے کہا کہ میں سکھ ہوں اور میں پنجابی پڑھا رہا ہوں اور ہماری نصابی کتب میں لکھا ہے کہ تقسیم ہندوستان کے وقت سکھوں اور ہندوئوں نے مل کر قتل عام کیا ، جس پر مجھ سے سوال کیا جاتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا۔ اب میں کیا بتائوں کہ کیا حقیقت ہے۔

جماعت اسلامی کےایڈیشنل سیکرٹری اظہر اقبال نے یوم اقلیت کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اختلافی بات کرنا بہت آسان کام ہے لیکن اصلاح کی بات ذرا دشوار ہوتا ہے، انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ غیر مسلم آبادی کیلئے اقلیت کا لفظ استعمال نہ کیا جائے بلکہ انہیں پاکستانی برادری کہا جائے اور غیر مسلموں کو بلا امتیاز، بلا تخصیص تمام حقوق برابری کی بنیاد پر دیئے جائیں گے، اظہر اقبال نے جماعت اسلامی کے منشور کے چند نکات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انکی جماعت کا منشور ہے کہ تمام شہریوں کے جان، مال، عبادت گاہوں کو تحفظ دیا جائے گا، 100 فیصد پاکستانیوں کیلئے تعلیم لازمی ہو گی، آبادی کے تناسب سے مخصوص طبقہ کو کوٹہ دیا جائے گا چاہے وہ 2 فیصد بنے یا 5 فیصد بنے، انہوں نے مزید کہا کہ جماعت اسلامی مذہبی جماعت نہیں بلکہ سماجی جمہوری پارٹی ہے، جو چیزیں جوڑنے والی ہوں، قریب کرنے والی ہوں اسکی کوشش کرنی چاہئے۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنماء بیرسٹر عامر حسن نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مجھے جس پر بات کرنے کا کہا گیا وہ تھا سیاسی جماعتوں کا مساوات اور انسانی حقوق کا تحفظ عنوان ہے، مجھے ایک ریسرچ پیپر بھی دیا گیا جس میں سیاسی جماعتوں کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ فلاں سیاسی جماعت نے اقلیتوں کے حقوق کے لئے فلاں کام اور اتنا کام کیا، پیپلز پارٹی کے بارے میں لکھا گیا کہ اقلیتوں کے بارے میں جتنے وعدے کئے گئے ان میں سے ایک دو ہی پورے کئے گئے، میں بڑا حیران ہوا کہ اقلیتوں اور انسانی حقوق پر اگر پیپلز پارٹی ناکام ہوئی ہے تو پھر کامیاب کون ہے، ریسرچ پیپر میں باقی جماعتوں کے بارے میں جب دیکھا تو پھر پتہ چلا کے ہماری جماعت ہی ہے جس نے کوئی وعدہ پورا کیا ہے اور پھر مجھے تسلی ہوئی کہ چلو کچھ تو کیا، ادارہ برائے سماجی انصاف کے لئے ریسرچ کرنے والا بڑا ہی سخت قسم کا ایگزامینر ہے جس نے کسی کو کوئی نمبر نہیں دیئے۔ قانون سماج کو بہتر بنانے کیلئے ہوتا ہے، قانون بنانے والے کوئی فرعون نہیں ہوتے، قانون بنانے والے جب آپ کے دروازوں پر آئیں گے جو آپ عزت افزائی کریں گے وہ ہم بھی جانتے ہیں، انہوں نے کہا کہ میں بھی قومی اسمبلی کے دو بار الیکشن لڑ چکا ہوں مجھے پتہ ہے کیا حال ہوتا ہے، سماج کی بہتری میں قانون راستہ ہوتا ہے، چلو شکر ہے میری سیاسی جماعت نے 11 اگست کو اقلیتوں کا قومی دن قرار دے دیا، جناح صاحب نے 11 اگست کو جو وعدہ کیا تھا وہ کہیں چٹاکانگ کے سٹیڈیم میں یا منٹو پارک میں نہیں کیا تھا بلکہ دستور ساز اسمبلی کے اندر وہ وعدہ کیا گیا تھا، انہوں نے اس روز اس ریاست کو آئین بنانے کے لئے رہنماء اصول دیئے تھے، بیرسٹر عامر نے مطالبہ کیا کہ قائد اعظم کی 11 اگست کی تقریر کو آئین کا سرورق بنایا جائے۔ بیرسٹر عامر حسن نے مزید کہا کہ ریاست کا قانون نہ مسلمان ، کیلئے ہوتا ہے، نہ مسیحی کیلئے نہ سکھ کیلئے، نہ ہی ہندو کیلئے ہوتا ہے، اگر اس ریاست میں مسلمانوں کی اکثریت ہے تو اس کے لئے اس کی قانون کی کتاب قرآن موجود ہے ، مسیحی کو اپنے مذہب کیلئے اپنی کتاب بائبل کو پڑھنا پڑے گا اسی طرح سکھ کو گرو گرنتھ پڑھنا پڑے گی اور ہندو کو بھگوت گیتا کو پڑھنا پڑے گا۔ قائد اعظم نے گیارہ اگست کو جو وعدہ کیا ہے وہ ایک انسان ،ایک شہری کی بات کی گئ، اس کے حقوق کی بات کرنی چاہئے ، پیپلز پارٹی نے پاکستان کی ایک غریب شہری کے حقوق کے لئے اپنا گورنر کھویا ہے، صوبے کا آئینی سربراہ کھڑا ہوا اسے منصور بنناپڑا ، موت قبول کرنی پڑی، جن کیلئے مرے تھے وہ رہے وضو کرتے، تو پھر وہ بات ہی نہ کریں تو پھر جگر جلتے ہیں، جو قوانین بنانے ہیں اس کےلئے ہمیں سماج کی ضرورت ہے اور ایسی قیادت ، جماعت کے ساتھ کھڑے ہوں جو معاشرے میں رواداری قائم رکھنا چاہتی ہو۔

پاکستان مسلم لیگ ق کے رہنما چودھری اشتیاق نے اقلیتی کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چودھری شجاعت حسین کی اجازت سے یہاں آیا ہوں اور انہوں نے کہا ہے کہ مسلم لیگ نے تمام اقلیتوں کیلئے بہترین اقدامات کئے ہیں وہ سب کے سامنے ہیں، ہمارے منشور میں تمام اقلیتوں کیلئے معاشی، معاشرتی، ترقی، تعلیم کیلئے برابر مواقع فراہم کرنے کا موقف موجود ہے، چودھری اشتیاق نے کہا کہ وعدے نہیں ہونے چاہئیں بلکہ عملی طور پر نظر آنا چاہئے، پاکستان مسلم لیگ ق نے ہمیشہ عملی کام کیا، کبھی جھوٹا وعدہ نہیں کیا، میانمار میں مسلمانوں کو قتل کیا گیا، جہاں لوگ اکثریت میں ہوتے ہیں وہاں اپنے چھوٹے طبقے پر روب ڈالنے کی کوشش کرتے ہی مگر اسلام اس رویے کی سخت مخالفت کرتا ہے۔اگر قانون پر عملدرآمد ہو تو کسی کی جرات نہیں کہ کوئی کسی پر اس طرح زیادتی و جبر کر جائے۔مسلم لیگ ق کے رہنما نے سابق چیف جسٹس پاکستان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ثاقب نثار اٹھتے تھے اور ہسپتالوں کی چیک کرنے لگ جاتے تھے جناب اپنا جوڈیشل سسٹم تو ٹھیک کر لو، جوڈیشل سسٹم کو ٹھیک ہونا چاہئے اگر یہ ٹھیک ہو گیا تو تمام ادارے ٹھیک ہو جائیں گے،انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ جبری مذہبی تبدیلی کی اسلام کی اجازت نہیں دیتا پتہ نہیں وہ کونسے مسلمان ہیں جو اس طرح کے کام کرتے ہیں، اسلامی تعلیمات جبر کیخلاف ہیں ،یہ کسی فرد واحد کا عمل ہو سکتا ہے،اقلیت کا لفظ ختم ہونا چاہئے اور ہم سب پاکستانی بھائی ہیں۔

ادارہ برائے سماجی انصاف کے ڈائریکٹر پیٹر جیکب قومی اقلیتی کنونشن میں مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کو دعوت نامے بھجوانے کے باوجود شرکت نہ کرنے پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے نظام میں نجانے کیا ہے کہ اسمبلی تو تحلیل ہوگئی ہے مگر تمام سیاسی لوگ اسلام آباد جار رہے ہیں،انہوں نے کہا کہ قومی اقلیتی دن 11 اگست ایک متبادل معیار کے مطالبے کا نام ہے، اس پر توجہ اتنی نہیں رہی جتنی اسکی ضرورت تھی، 11 اگست کی قائد اعظم کی تقریر، 14 نکات تخصیصیت کا مطالبہ اس لئے تھا کہ پسماندگی کو دور کیا جائے، حقوق کی مساوات کو قائم کرنا مقصد ہے، پاکستان میں اعلانیہ طور پر تو ایسا ہے مگر عملی طور پر نہیں ہے، حکومت نے اقلیتی کمیشن پر ایک یکطرفہ بل منظور کیا،انہوں نے اقلیتوں کے تحفظ کیلئے اقلیتی بل پر اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے پر اعتراض کرتے ہوئے کہاکہ اقلیتی بل پر کیوں اسلامی نظریاتی کونسل کیوں ضروری ؟ہم مطالبے سے پہچھے نہیں ہٹیں گے، جب تک حقوق کی مساوات قائم نہیں ہو جاتی۔

ادارہ برائے سماجی انصاف کے مینیجر سنیل ملک نے کنونشن سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ہاں وعدے کرنے کا رواج ہے لیکن ہر سیاسی جماعت وعدوں کی فہرست جاری کرتی ہے جسے منشور کہا جاتا ہے جس پر عمل نہیں کیا جاتا، انہوں نے کہا کہ گزشتہ 3 انتخابات ہوئے اور اقلیتوں کے حقوق پر کئے گئے وعدوں پر کتنا عمل ہوا اس کا ہم نے ایک جائزہ لیاہے۔ سیاسی جماعتوں نے وعدے تو بڑے کئے ان پر عمل درآمد نہیں کیا گیا، ان پر عمل درآمد اس لئے نہیں ہوا شائد انکی سیاسی جماعتیں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتی نظر آئیں، سنیل ملک نے نشاندہی کی کہ جب وزارت مذہبی امور کی طرف سے کچھ دبائو آیا تو جبری مذہب تبدیلی کے معاملے پر بھی کچھ عملی اقدامات نہیں کئے گئے، توہین کے قوانین کے غلط استعمال کی روک تھام کیلئے بھی کوئی عملی کام نہیں کیا گیا، انہوں نے مطالبہ کیا کہ انتخابات سے پہلے کئے گئے وعدوں پر عمل کر کے اقلیتوں کو مساوی حقوق دیئے جائیں۔

قومی اقلیتی کنونشن میں ایم کیو ایم، مسلم لیگ ن، استحکام پاکستان پارٹی اور پی ٹی آئی کے رہنمائوں کو بھی مدعو کیا گیا تھا مگر ان سیاسی جماعتوں کی طرف سے کسی بھی رہنماء نے شرکت نہیں کی۔

منیر باجوہ صحافی ہیں اور مختلف موضوعات سے متعلق رپورٹنگ کرتے ہیں۔ وہ نیا دور میڈیا کی رپورٹنگ ٹیم کا حصہ ہیں۔