قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر جاوید عباسی کے 24 اگست2020 کو سینیٹ اجلاس میں متعارف کرائے گئے بل برائے اقلیتی حقوق کے تحفظ کے ترمیمی بل 2020 کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ حضور اکرم ﷺ نے اقلتیوں کے حقوق کے تحفظ کا پورا خیال رکھا تھا اور قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے بھی اپنی پہلی تقریر میں واضح کر دیا تھا کہ پاکستان میں بسنے والی تمام اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہو گی اور وہ اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کے لئے آزاد ہوں گے۔ پاکستان کے تینوں آئین میں بھی اقلیتوں کے حقوق کا خیال رکھا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر کوئی اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے تو آ ئین میں اس کیلئے سزا ہونی چاہیے۔
اس حوالے سے آئین کے مطابق قانون سازی تجویز کی گئی ہے۔جس پر وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نور الحق قادری نے کہا کہ جب یہ بل سینیٹ میں متعارف کرایا گیا تھا تب اس کی مخالفت نہیں کی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ بل میں تجاویز کے حوالے سے مختلف وزارتوں اور صوبائی حکومتوں کا کردار بھی ہے اور یہ صوبائی معاملہ بھی ہے۔ملک میں یکساں تعلیمی نصاب رائج کیا جارہا ہے اور وزارت تعلیم نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ نصاب میں ایسا کوئی مواد شامل نہیں کیا جائے گا جس سے نفرت پھیلے۔ اس ضمن میں پہلی کلاس سے پنجم تک نصاب بن چکا ہے اور چھٹی سے آگے نصاب بنایا جارہا ہے۔انہوں نے کہاکہ جبری مذہبی تبدیلی کے حوالے سے سندھ کے دو تین اضلاع میں یہ واقعات رونما ہوئے مزید برآں مذہبی جبری تبدیلی پر سینیٹ کی ایک کمیٹی بھی کام کررہی ہے اوروزیر اعظم کی خواہش تھی کہ اقلیتی کمیشن کی سربراہی اقلیت سے تعلق رکھنے والے سربراہ کے سپرد ہو۔ اقلیتی کمیشن کا چیئرمین وزیر اعظم کی خواہش پر اقلیتی رکن کو مقرر کیاگیا ہے۔ اگر کوئی انتظامی کمزوریاں ہیں تو متعلقہ اضلاع کی انتظامیہ سے بریفنگ حاصل کی جا سکتی ہے۔
بہتر یہی ہے کہ سینیٹ کی جبری مذہب تبدیلی کی کمیٹی میں معزز سینیٹر بل اور اپنے موقف کو پیش کر کے رائے حاصل کریں۔ رکن کمیٹی سینیٹرحافظ عبدالکریم نے کہا کہ ملک میں اقلیتوں کی بجائے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کا بل لانا چاہیے۔ پاکستان میں اقلیتوں کو دیگر ممالک کی نسبت پہلے ہی بہت زیادہ حقوق مل رہے ہیں۔ اگر کچھ ہندو لڑکیاں مسلمان ہوکر شادیاں کرلیتی ہیں تو سب انکے پیچھے پڑجاتے ہیں۔ ہر ایک کو مذہبی آزادی حاصل ہے۔ مذہب اسلام میں جبری تبدیلی کا تصور ہی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے بل کو لانے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ قائد حزب اختلاف سینیٹ سینیٹرراجہ محمد ظفرالحق نے کہا کہ پاکستان میں جبری مذہب تبدیلی کے اکا دکا واقعات ہوئے ہیں۔
پاکستان میں حالات انڈیا سے بہت بہتر ہیں جہاں اقلیتوں کے ساتھ ایک جنگ کا ماحول بن چکا ہے۔ سینیٹر کیشو بائی نے کہا کہ ہماری بچیوں کو اغوا کیا جاتا ہے اور کافی دنوں کے بعدجب وہ عدالت میں جاتی ہیں تو اس کا بیان اور ہوتا ہے۔ ہمارے لئے قانون سازی کرنی چاہیے کہ اس طرح کے واقعات کے تدارک کیلئے سزائیں ہو۔ ذاتی دشمنی پر بچیوں کو اغوا کرلیا جاتا ہے اور مذہب کا نام لگایا جاتا ہے۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری نے کہاکہ اس معاملے کے حوالے سے ایوان بالاء کی جبری مذہب تبدیلی کی کمیٹی میں جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا آئین ہماری قانون سازی سے مسخ نہیں ہونا چاہے۔ نصاب تعلیم سے اسلامی تعلیمات کو ایک ایک کرکے نکالا جارہا ہے۔اسلامی ممالک پر امریکا کی طرف سے دباؤ ہے۔
سعودی عرب میں جہاد کی آیات کی نماز میں تلاوت پر پابندی کا دباؤآیا۔ کچھ ممالک دباؤ زیادہ لیتے ہیں کچھ کم لیکن ہم دباؤمیں آجاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مرضی سے مذہب کی تبدیلی پر کوئی قدغن نہیں ہے مذہب ہر ایک کا ذاتی مسئلہ ہے۔ مذہب اسلام میں جبری تبدیلی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ قوانین موجود ہیں اس میں قانون سازی کی ضرورت نہیں ہے۔قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امور نے کثرت رائے سے اقلیتوں کے مذہبی حقوق کے بل 2020 کو مسترد کردیا۔