پارلیمان کی خصوصی کمیٹی برائے تحفظ اقلیت برائے جبری مذہبی تبدیلی نے اقلیتوں کو جبری مذہبی تبدیلی سے تحفظ دینے کا بل مسترد کرتے ہوئے واضح کیا کہ یہ بل اسلام اور سنت کے خلاف ہے اور پارلیمان کسی ایسی قانون سازی کی حمایت نہیں کرسکتا جو اسلام کے خلاف ہو۔
کمیٹی کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے اقلیتی ممبران نے شدید احتجاج کیا اور موقف اپنایا کہ حکومت اور ریاست ایک بار پھر انتہاپسندوں کے سامنے جھک گئی۔ اقلیتی ممبران نے الزام لگایا کہ کمیٹی کے چیئرمین لیاقت ترکئی کو ایک کمرے میں وزیر مذہبی امور اور وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کمپیوٹر سے لکھا ہوا ایک فیصلہ دیا اور چئیرمین نے کمیٹی میں پہلے سے تیار شدہ فیصلہ سنا دیا۔
اقلیتی ممبران نے کہا کہ ملک میں اقلیتوں کو خطرہ ہے اور اس بل کے رد کرنے سے جبری مذہبی تبدیلیوں میں ملوث عناصر کو ایک مضبوط پیغام جائے گا کہ آپ ہندو کی بیٹیوں اور بہنوں کو اٹھاؤ اور ان کو زبردستی مسلمان کرو، ممبران نے کہا کہ وہ فیصلے کے خلاف ہر فورم استعمال کرینگے۔
کمیٹی میں بریفنگ دیتے ہوئے وزیر مذہبی امور پیر نور الحق قادری نے کہا کہ جبری مذہبی تبدیلی کے حوالے سے قانون سازی کرنے کے لئے ماحول ساز گار نہیں اور ہم اس پر قانون سازی کرینگے تو ملک میں امن و امان کی صورتحال خراب ہوجائے گی اور اس کے ساتھ ساتھ ملک میں بسنے والے اقلیتوں کے خلاف مزید مسائل جنم لینگے اور وہ مزید غیر محفوظ ہوجائینگے۔
وزیر مذہبی امور نے مزید کہا کہ صوبائی حکومتیں، سپیکر قومی اسمبلی اور وزیر اعظم آفس جبری مذہبی تبدیلیوں کے حوالے سے کوئی اور اقدامات کریں لیکن قانون سازی کرنے کا ماحول نہیں کیونکہ اس قانون سازی سے ملک میں فساد ہوگا۔
وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم پاکستان کے نوٹس میں یہ مسئلہ لایا گیا اور انھوں نے اس پر پارلیمان کی خصوصی کمیٹی بنائی اور ہماری حکومت جبری مذہبی تبدیلیوں کے حوالے سے سنجیدہ ہے لیکن ہم اپنے ملک کے لئے قانون سازی کرینگے ہمیں کسی بین الاقوامی ادارے یا این جی او سے شاباشی نہیں لینی۔
وزیر مملکت نے کہا ہم اس قانون سازی کے حق میں نہیں کیونکہ عمر کا تعین اسلام اور آئین پاکستان کے خلاف ہے۔ علی محمد خان نے مزید کہا کہ مجھے وزیر قانون فروغ نسیم نے اپنے دفتر بلایا اور کہا کہ جبری مذہبی تبدیلیوں کے حوالے سے قانون سازی نہیں کرنی کیونکہ یہ ایک خطرناک قانون سازی ہے اور اس سے مسائل بڑھیں گے۔ علی محمد خان نے مزید کہا کہ مجھے وزیر قانون نے کہا کہ وزارت کی کوئی اہمیت نہیں کیونکہ وزارتیں آنی جانی ہے لیکن ہمیں اسلام کے خلاف نہیں جانا چاہیے۔
سینیٹر مشتاق احمد نے قانون سازی پر رائے دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت کی غلط پالیسیوں اور غفلت کی وجہ سے نہ صرف پاکستان بلکہ اسلام اور اقلیتیں بھی ایک کٹہرے میں کھڑی ہوگئی ہیں، سینیٹر مشتاق احمد کے رائے پر وزیر انسانی حقوق، وزیر مذہبی امور اور وزیر مملکت علی محمد خان نے شدید احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ آپ غلط بیانی کررہے ہیں اور جبری مذہبی تبدیلیوں کا قانون حکومت کا نہیں تھا۔
سینیٹر مشتاق احمد نے مزید کہا کہ ملک میں جبری مذہبی تبدیلیوں کا کوئی مسئلہ نہیں ہے اور نہ کسی کو زبردستی اسلام قبول کرنے کے لیے مجبور کیا جارہا ہے اور یہ بل انسداد اسلام ہے۔
وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا کہ نہ حکومت اور نہ ہی کوئی وزارت نے اس بل کو سامنے لائی ہے اور نہ ہی یہ حکومتی بل ہے بلکہ یہ ایک پرائیویٹ ممبر بل ہے۔
حکمران جماعت سے اقلیتی ایم این اے لال مالہی نے وزیر مذہبی امور اور وزیر مملکت علی محمد خان کے ریمارکس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے فیصلوں سے یہ تاثر سامنے آرہا ہے کہ ملک میں جبری مذہبی تبدیلیوں کا کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں۔ انھوں نے مزید کہا آپ تو اقلیتوں کو دیوار سے لگا رہے ہو اور ایسے فیصلوں سے ملک اقلیتوں کے لئے جہنم بن جائے گا۔ لال مالہی نے مزید کہا کہ اس قانون کو اسلامی نظریاتی کونسل اور وزارت مذہبی امور نے رد نہیں کیا تھا بلکہ اس بل کو میاں مٹھو کے احکامات پر ردکیا گیا۔
لال مالہی کے ریمارکس پر کمیٹی کے اکثر ممبران سیخ پاہوگئے اور وزیر مملکت علی محمد خان اور مذہبی امور کے وزیر نے لال مالہی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آپ غلط بیانی کررہے ہیں اور سیاسی بیانات دے رہے ہیں۔ لال مالہی کی رائے پر جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد آپے سے باہر ہوگئے اور کہا کہ چاہیے جو بھی ہوجائے لیکن ہم اسلام کے خلاف قانون سازی کی اجازت نہیں دینگے۔
کمیٹی میں اقلیتی ممبران نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے بیٹیوں اور بہنوں کو دن دیہاڑے اٹھایا جارہا ہے اور ان کو زبردستی مسلمان کیا جارہا ہے اور یہاں کمیٹی کے مسلمان ممبران موقف اپنا رہے ہیں کہ ملک میں جبری مذہبی تبدیلیوں کا کوئی مسئلہ نہیں۔
کمیٹی ممبر مولوی فیض محمد نے موقف اپنایا کہ یہ قانون اسلام اور شریعت کے خلاف ہے اور ہم ملک میں اسلام کے خلاف کسی قانون سازی کی اجازت نہیں دینگے۔
کمیٹی میں اظہار خیال کرتے ہوئے اقلیتی ممبر رمیش کمار نے کہا جو لوگ اسلام سے متاثر ہوکر اسلام میں داخل ہوتے ہیں ہم خیر مقدم کرتے ہیں لیکن بہت سارے ہندوؤں کو رقم اور شادی کی لالچ دیکر دائرہ اسلام میں داخل کیا جاتا ہے لیکن جب اس پر عمل نہیں ہوتا تو وہ لوگ واپس اپنے گھروں میں آجاتے ہیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے اسلام میں داخل نہیں ہوئے۔
رمیش کمار نے مزید کہا کہ اس طرح قانون سازی کو روکنے کا مطلب یہی ہے کہ ریاست جبری مذہبی تبدیلیوں میں ملوث عناصر سے گھبرائی ہوئی ہے۔
حکمران جماعت کے اقلیتی ایم این اے لال مالہی نے کمیٹی میں موقف اپنایا کہ صرف عمر پر اگر حکومت اور کمیٹی کو اعتراض ہے تو اس کو نکال کر باقی بل کو رہنے دیں۔ لال مالہی نے موقف اپنایا کہ حکومت اور ریاست پھر کوئی بل لیکر آئے جو شریعت کے ساتھ متصادم نہ ہو اور اقلیتوں کو بھی جبری مذہبی تبدیلی سے بچایا جائے لیکن آپ کو اقلیتوں کو تحفظ دینا ہوگا۔