'ون پیج' تھیوری کے تکبر میں انسانی حقوق کی پامالی

موجودہ حکومت جسے سلیکیٹیڈ حکومت کہا جاتا ہے، اس کی طاقت اور اقتدار کا مرکز’ون پیج تھیوری‘ رہی ہے، لہذا اس کو عوام کی معاشی مشکلات، ملکی سیاسی عدم استحکام، پارلیمنٹ میں حاضری، قانون سازی، اپوزیشن سے ورکنگ ریلیشن شپ کی کیا پرواہ۔

جنہوں نے پارٹی کو مضبوط کیا، الیکیٹیبلز بھرتی کروائے، بڑے جلسے کروائے، دھرنوں میں رقم وکمک پہنچائی، وہی آئندہ بھی مشکل حالات میں مدد پہنچائیں گے، اور معاملات یوں ہی چلتے رہیں گے۔

کیا مصیبت پڑی ہوئی ہے کہ سیاست اور معیشیت کی گھمبیر الجھنوں میں الجھا جائے۔ بس ’ون پیج تھیوری‘ کے سہارے  تکبر، غرور، نان سیریس طریقے اور پاپولر نعروں سے نظام سلطنت چلتا رہے۔ یہی مائنڈسٹ ہے۔

کیا ضرورت پڑی ہے اپوزیشن سے بات چیت کی جائے، عوامی مسائل کو خاظر میں لایا جائے۔ موجودہ حکومت کے بھونپو شیخ رشید، جو اسی فلاسفی پر چلتے ہیں، اور یہی نقطہ ںظر رکھتے ہیں لہذا ریلوے کے معاملات میں کیا کرنا ہے، بہتر یہی ہے کہ ٹی وی ٹاک شوز میں شرکت کی جائے، روز پریس کانفرنسز کے زریعے اپوزیشن کی ڈیل اور ان کی رہنماوُں کے بارے میں آگاہ کیا جائے، قوم کو بتایا جائے کہ اپوزیشن رہنماؤں کی اب صحت کیسی ہے۔ کون کتنا بیمار ہے، اور کون کس کی ٹیم میں ہے۔

’ون پیج تھیوری‘ ہی شیخ رشید جیسے وزیروں  کو اعتماد فراہم کرتی ہے اور وہ ببانگ دہل کہتے پھرتے ہیں کہ ’جن کا مسئلہ ہے وہی بات کر لیں گے‘ اس سے قبل بھی وہ ارشادات فرماتے رہے ہیں کہ جن کو بات کرنی آتی ہے، یا معاملات ڈیل کرنا جانتے ہیں وہی معاملات چلائیں گئے۔ موجودہ حکومت تو بس کٹھ پتلی اور اقتدار انجوائے کرنے کے لئے ہے۔

مطلب ایکسٹینشن کے بارے میں جنہوں نے اپوزیشن سے بات کرنی ہے وہ جانے اُن کا کام جانے کٹھ پتلی سلیکیٹیڈ حکومت کا اس سے کیا لینا دینا۔ اس کو اس میں کیا دلچسپی۔ اسی لئے حکومت کی جانب سے اپوزیشن سے بات کرنے والی کمیٹی میں ابھی کوئی ہل جُل دکھائی نہیں دیتی۔

https://www.youtube.com/watch?v=t1vbh1bc7g8

سیاست اور سیاسی تاریخ سے باخبر لوگ جانتے ہیں کہ ایسے غیر سنجیدہ اور مسخرانہ نظام کتنے ناپائیدار ہوتے ہیں۔ بس ایک صفحہ ہوا نے پلٹا تو پورے کا پورا نظام ہوا میں بکھر جاتا ہے۔ جیسے ہی تیز ہوا چلی یا ہوا نے اپنا رُخ بدلا تو نیب کے چئیرمین کو اشارہ مل جائے گا کہ ہواوُں کا رُخ اب بدل چکا ہے، اور حکومتی کیسز احتسابی اداروں کے راڈار پر آجائیں گے۔

تحریک انصاف میں لالچ اور ریاستی جبر سے شامل کئے ہوئے موسمی پرندے یا الیکیٹیبلز بھی نئے ہوا کے رُخ کے ساتھ اُڑان بھرلیں گے۔  پھر سیلیکیٹیڈ ہاوُس آف کارڈز ہمیں ہوا میں بکھرتا نظر آئے گا۔ 

’ون پیج تھیوری‘ سلیکیٹیڈ حکومت کی طاقت بھی ہے اور کمزوری بھی۔ چونکہ اس کا وجود عوام کے ووٹ اور سپورٹ کی بجائے طاقتور مقتدر حلقوں کے سربراہان کی خوشنودی سے قائم ہے۔ ایک صفحے پر ہونے کی تھیوری جو کہ آئین سے بھی مطابقت نہیں رکھتی، آئین جو ہمیں بنیادی انسانی حقوق سے لے کر صدر، وزیراعظم اور دیگر اداروں کے فرائض، اختیارات، دائرہ کار اور حلف کے بارے میں بڑی وضاحت سے بیان کرتا ہے۔ جس میں ریاستی اداروں کو سیاست میں غیر جانبدار اور کسی حد تک لاتعلق رہنا ہوتا ہے۔ مزید براں اس ’ون پیج تھیوری‘ کی اسکیم میں نمائندہ حکومت کا وزن کم ہے جبکہ دیگر فریق بھاری بھرکم وجود کے ساتھ موجود ہیں لہذا یہ نظام اپنے اندر متعدد کمزوریاں رکھتا ہے۔ یہی کمزوروں اور نظام کا کھوکھلا پُن آہستہ آہستہ ظاہر ہورہا ہے، جو کہ سلیکیٹیڈ حکومت کے خاتمے، مائنس ون فارمولے اور ان ہاؤس چینج کی طرف بڑی تیزی سے لے کر جارہا ہے۔

https://www.youtube.com/watch?v=yLym6Rle-tY&t=8s

آج 10 دسمبر عالمی حقوق کا بین الاقومی دن ہے، اور اس پر بھی ان سطروں میں بات ہونی چاہیے، پاکستان کے طول عرض،  شہر شہر، گلی گلی ، اقتدار کے ایوانوں سے بستی بستی انسانی حقوق پر بات ہونی چاہیے، آگہی کی کاوشیں ہونی چاہیے۔ شہید ذوالفقار علی بھٹوکا 1973 کا  متفقہ دستور، پاکستان میں تمام بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت دیتا ہے، جب بھی کوئی غیر جمہوری سیٹ اپ بزور قوت یا بزریعہ گمراہی نافذ کیا جاتا ہے تو اس کا پہلا نشانہ بنیادی انسانی حقوق کا باب بنتا ہے۔ عوام کے بنیادی انسانی حقوق پر ڈاکہ ڈال کر ان کو سلب کرلیا جاتا ہے۔

https://www.youtube.com/watch?v=XVg6Q5koF7E

بذریعہ گمراہی جو نظام اس وقت موجود ہے اس میں بنیادی انسانی حقوق کی صورتحال بدترین ہے۔ ون پیچ تھیوری کے تکبر اور نشے میں حکومت کے ہاتھوں بنیادی انسانی حقوق کی بدترین پامالی ہوئی ہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان 'ایچ آر سی پی' کی طرف سے 2018ء میں ملک میں انسانی حقوق کی صورت حال سے متعلق جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں ملک میں انسانی حقوق کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ملک میں گزشتہ سال منعقد ہونے والے عام انتخابات سے پہلے میڈیا کی آزادی کو محدود کرنے کے مبینہ اقدامات نے خوف کی فضا کو جنم دیا ہے جس کی وجہ سے صحافی سیلف سینسرشپ پر مجبور ہو گئے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال ہونے والے انتخابات سے پہلے قومی سلامتی کے خدشات کے پیش نظر میڈیا کی کوریج پر قدغن عائد کی گئیں جو ایچ آر سی پی کے مطابق اظہار رائے کی آزادی کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

رپورٹ کے مطابق حکومت کی طرف سے پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام کے اعلان پر بھی میڈیا نے تحفطات کا اظہار کرتے ہوئے اس اقدام کو میڈیا اور پریس کی آزادی کو محدود کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2018ء میں پاکستان میں انٹرنیٹ کی آزادی کی درجہ بندی کم ہو گئی۔ ایچ آر سی پی نے سائبر جرائم کی روک تھام سے متعلق غیر واضح قانون، انٹرنیٹ کی بندش اور سیاسی اختلاف رائے رکھنے والوں کے خلاف مبینہ حملوں کو اس کی وجہ قرار دیا ہے۔

https://www.youtube.com/watch?v=5w8rPWJPLu8

قومی ریاستوں میں سیاسی و شہری حقوق کی اہمیت سب سے ذیادہ ہوتی ہے، اس سے باقی حقوق کی دستیابی آسان ہوجاتی ہے۔ جب ووٹ کا، حکمرانوں کے انتخاب کا حق چھن جاتا ہے، تو باقی حقوق بھی چھن جاتے ہیں۔ نیب کے زریعے جو سیاسی انجئینرنگ ہوئی ہے اس پر چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کا انتقام کے لیے نیب کو بطور آلہ استعمال کرنا پاکستانی شہریوں کے بنیادی حقوق پرحملہ ہے۔

انسانی حقوق کے عالمی دن پر اپنے پیغام میں انہوں نے کہا کہ ریاست کی جانب سے اپنے شہریوں سے معاہدے کا احترام اور ہر شہری کے انسانی حقوق کی بلا امتیاز پاسداری ضروری ہے،انسانی حقوق کی پاسداری میں کوتاہی قیامِ پاکستان کے بنیادی اصولوں سے انحراف ہے۔ جب سے موجودہ حکومت مسلط ہوئی ہے، ملک میں انسانی حقوق کی پامالی میں اضافہ ہوا ہے، حکومت نے آزادیِ صحافت سے لے کر آزادیِ انجمن و تنظیم جیسے حقوق کو دبانے والی مہم کی سرپرستی کی ہے۔

https://www.youtube.com/watch?v=7Hsk1vndToc&t=1s

حکومت نے طلبہ اور شہید مشال کے والد کے خلاف پرچہ کاٹ کر ریاستِ مدینہ کے متعلق اپنے دعووَں کو زمیں بوس کیا، پرامن و ترقی پسند معاشرے کے لیے آزادیِ اظہار، عقیدے کی آزادی، خواتین، بچوں اور پسماندہ طبقات کے حقوق کو تحفظ دینا ہوگا۔

آج پاکستان کو بھی ون پیچ تھیوری جیسے فرضی نظریات سے زیادہ جمہوریت، مساوی انسانی حقوق، آئین پسندی اور قانون پر عملداری جیسے یونیورسل تصورات کی عملی صورت کی اشد ضرورت ہے۔