"بابا آ گئے "
سرخ تابوت کے پہنچنے پر غمزدہ بچے نے ماں نلوشی کا ہاتھ اور مضبوطی سے تھام لیا،،
باپ کے اسطرح جانے کا غم اور خوف نے ماں کی گود کو محفوظ سے محفوظ ترین بنا دیا تھا
نلوشی نے رستے میں آنسو بچھا کر ،،،اپنے شوہر پریانتھا کا آخری استقبال کیا
اسکا پسندیدہ ۔۔۔سرخ رنگ،،، آج اسکو کھانے کو دوڑ رہا تھا
"میرا بیٹا ، میرابیٹا "نلوشی کے پیچھے سے زیادہ دکھی اور نحیف آواز نے نلوشی کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا
ماں نے آگے بڑھ کر تابوت کو گلے لگایا ،،،
کاش،،، ماں کے آنسو،،، اپنے بیٹے کے گالوں کو چوم سکتے ،،،
کاش،،، ماں بیٹے کو دعاؤں بھرا آخری بوسہ دے کر ،،،بیٹَے کو رخصت کرتی
کاش، آخری بار گلے لگا سکتی،
ظالموں نے بہت برا کیا 1
ہجوم میں موجود ۔ہلکی ہلکی ،، دبی دبی ۔۔ خواہشیں ۔۔۔ماحول کو اور بھی غمزدہ کر رہی تھیں
پریانتھا کی ماں تابوت کے اوپر ہی ،، غش کھا کر گر گئی ۔۔۔
"میرا بیٹا ، میرا بیٹا "ماں کی آواز دوبارہ زندہ ہوئی اور تابوت کو اس خواہش سے دیکھنے لگی کہ شاید ۔۔ پریانتھا کا چہرہ ۔۔ ہی نظر آ جائے ،،،
لیکن ۔۔ سرخ تابوت کے اندر ایک سفید کفن ۔۔۔اور اس کے اندر کچھ لوگوں کے سیاہ ترین اعمال
پریانتھا کے بیٹے کے ذہن کے سوال،،، اس کے آنسووں سے کہیں زیادہ تھے۔۔۔
وہ کبھی آنسو پونچھتا ، کبھی سوچنے لگتا ،، پھر روتا ، پھر سوچنے لگتا ۔۔۔ کہ بابا کے ساتھ یہ کس نے کیا ، یہ سب کیوں ہوا ؟
نلوشی کی آنکھوں میں کئے آنسو تھے ،، کبھی شوہر کی جدائی کاآنسو، کبھی بیٹے کے یتیم ہونے کا ،،، کبھی ایسی موت کا ، کبھی آخری بار چہرہ نہ دیکھنے کا ،،،
دو آنکھیں اور اتنے آنسو،،،؟
خدا ایسے دکھ دینے والوں کو آنکھیں صرف دو ہی کیوں دیتا ہے؟؟؟؟
پریانتھا کے بھائی نے آخری آواز لگائی اور تابوت کو تدفین کے لیے اٹھا لیا گیا
آنسوؤں ، سسکیوں ، آہوں اور سوالوں کےسیلاب میں سرخ تابوت چلا گیا ،،،
میرا بیٹا ،میرا دوسرا بیٹا ؟پریانتھا کی ماں کی آواز نے ماحول میں سوال کھڑا کردیا
"دوسرا بیٹا "نلوشی ، اسکا بیٹا ، بھائی ،،،، سب ماں کی طرف دیکھنے لگے
"میرا دوسرا بیٹا ، وہیں چھوڑ آئے؟"
"لے کر آؤ،،ابھی لے کر آؤ ،،،، میرا دوسرا بیٹا "
ماں کی غنودگی بھری آواز سے تجسس ،،، کا دھواں اٹھ رہا تھا ،،، دکھی ماحول میں سوال کھڑا ہو چکا تھا
"نلوشی ، پریانتھا کا ایک بھائی وہیں رہ گیا ہے، اسکو لے آؤ،"
" ظالم اسکو بھی مار نہ دیں " اس بار نلوشی نے ماں کو ساتھ لگا لیا۔
" میرے بیٹے عدنان کو لے آؤ" ماں یہ کہہ کر پھر بے ہوش ہو گئی