کچھ روز قبل ایک وڈیو کلپ سوشل میڈیا پر نظر سے گزرا۔ شاہ محمود قریشی اپنی کنال بھر کی گاڑی میں کسی جانب روانہ۔ گاڑی ہجوم کی وجہ سے آہستہ ہو کر اس قابل نہیں رہتی کہ چل سکے۔ کوئی دس برس کا زبیر نامی بچہ تھیل سیمیا کا مریض ان کے آگے گڑگڑا رہا ہے جیسے وہ بے بس رعایا ہو اور قریشی فرعون۔ بچہ ہاتھ جوڑ کر فریاد کر رہا ہے کہ اسے عمران خان سے ملوایا جائے۔ شاید شوکت خانم میں علاج کے واسطے۔ قریشی اپنے جاہ و حشم میں مخمور بچے کو انتہائی حقارت آمیز نظروں سے دیکھ کر گاڑی کا شیشہ چڑھاتا ہے۔ یقیناً راستہ کھل چکا ہے۔ گاڑی فریادی کو پیچھے چھوڑ کر آگے چلی جاتی ہے۔ قریشی کا تکبر اور رعونت شدید تنقید کا نشانہ بنتی ہے۔
لیکن ناقدین اپنے گریبان میں جھانکنے سے قاصر ہیں۔ کم و بیش ہم سب ہی اپنی ذات میں فرعون ہیں۔ پچھلے دنوں کوئی جج موٹروے پر اصولوں کی پامالی کے نتیجے میں روکا گیا تو فرض شناس پولیس والوں پر برس پڑا ور انہیں معطل کرا دیا۔ ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ انہیں انعام دیتا۔ ان جیسی ہی ایک خاتون جو کسی کرنل کی بیوی تھی، کسی حوالدار کی بے عزتی کر کے ناکہ توڑ کر گاڑی بھگا لے گئی۔ قانون خاموش تماشائی بنا رہا۔ نواز شریف کو جب نکالا گیا تو وہ بھی قریشی کی طرح کسی لانگ مارچ کی طرف جا رہا تھا۔ اس کی گاڑی نے معصوم بچہ کچل دیا۔ بچہ جان سے گیا۔ نواز شریف نے گاڑی تک نہ روکی۔ فواد چودھری جب جی چاہے کسی کو بھی بھری محفل میں تمانچہ رسید کر دیتا ہے۔
ہمارے صحافی بھائی کیا کم ہیں کسی فرعون سے۔ قریب 20 برس قبل قریشی والی رعونت سے ایک غریب سکیورٹی گارڈ کی بے عزتی قبر میں پیر لٹکائے صحافی صالح ظافر کے ہاتھوں میں نے خود دیکھی۔ اسلام آباد ہوٹل میلوڈی میں کوئی تقریب تھی۔ سب آنے والوں کے بدن پر سکینر پھیرا جا رہا تھا۔ جب گارڈ ظافر کی طرف بڑھا تو اس نے بہت غرور سے جھڑک دیا۔
ہر ٹٹ پونجیا اپنی کار، موٹر سائیکل یا ٹرائی سائیکل پر 'پریس' کی تختی لگائے پھرتا ہے۔ یار لوگوں نے میم بنائی۔ گدھا گاڑی والا اپنی ریڑھی کے پیچھے 'بیورو چیف' کی پلیٹ لگائے گدھا دوڑا رہا ہے۔
ایک دو نئے صحافیوں نے ایک آدھ اچھی رپورٹ کی۔ میں نے تعریف کی اور کوئی سوال بھی پوچھ لیا۔ مجال ہے جو کسی نے جواب دیا ہو۔ جواب دینا شان کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ ایک بہت بڑے لکھاری ہیں۔ اللہ نے بہت وسعت دے رکھی ہے ان کے کام میں۔ عرصہ دراز سے اسی وسعت کو ری سائیکل کر رہے ہیں۔ ان سے گزارش کی کہ اپنے کچھ پرانے کالم بھیج دیں۔ چھوٹے نہ ہو جائیں گے یہ اللہ کی وسعت سے بھرپور صاحب۔ مجال ہے جواب دیا ہو۔ پھولے نہ سمائے جب ان کا پروگرام ایم اے جرنلزم کے پرچے میں سوال کی شکل میں نمودار ہوا۔ ارے اس دو کوڑی کے نظام تعلیم میں ایم اے جرنلزم کس کھیت کی مولی! اور پھر بڑی بڑی پوسٹیں فیس بک پر کہ آج میں فلانے ادبی اور کل ڈھمکانے غیر ادبی فیسٹیول میں جا رہا ہوں۔
کسی ایڈیٹر کو اپنی تحریر بھیج دیں۔ فرعون کے بھی باپ کی طرح آپ کو سمجھے گا۔ انکار تک کا جواب نہ دے گا۔ جو واقعی عظیم ہیں وہ اس قسم کا چھوٹا ظرف نہیں رکھتے۔ قریب 25 برس قبل ایاز امیر صاحب کی کوئی تحریر پسند آئی۔ لکھا۔ فوراً جواب آیا۔ میں چکوال ملنے گیا۔ بہت پیار سے ملے۔ کچھ عرصے بعد گاڑی بھیج کر مجھے اپنے گاؤں بھگوال بلایا۔ دیسی چکن اور بہترین ولایتی وہسکی سے خاطر تواضع کی۔ ایک دفعہ مجھے اسلام آباد کلب مدعو کیا کہ آؤ دونوں اکٹھے سوئمنگ کرتے ہیں۔ اگر کبھی انہیں فون کرو اور وہ نہ سن سکیں تو پہلی فرصت میں رابطہ کرتے ہیں۔ کوئی سوال پوچھوں تو فوراً جواب دیتے ہیں۔ ایک مرتبہ شیکسپیئر کا جولیس سیزر پڑھتے ہوئے دقت پیش آرہی تھی۔ کیا فصاحت اور آسانی سے تشریح کی!
اتنے ہی برس قبل مرحوم عرفان حسین صاحب کو ای میل کی۔ جواب آیا۔ وہ اسلام آباد تشریف لائے تو مجھ سے ملنے آئے۔ میں کچھ بھی نہیں۔ معمولی سا لکھاری۔ اکا دکا بھی نہیں۔ بہت گہری دوستی ہو گئی۔ اتفاق سے ایاز اور عرفان دونوں ہی کلاسیکل موسیقی کے رسیا اور میں قریب آدھا مراثی بذریعہ موسیقی کی تعلیم! بالکل اسی انداز میں اردشیر کاوس جی سے دوستی ہوئی۔ اور بہت سارے ان جیسے عظیم لوگ ہیں جو اب دنیا میں نہیں۔۔سعید ملک، خالد حسن، ایم اے مجید، ارشاد احمد حقانی، زیڈ اے سلہری، رحیم اللہ یوسفزئی، وغیرہ۔
22 برس قبل فرائیڈے ٹائمز کے ایڈیٹر نجم سیٹھی صاحب کو ایک مضمون ای میل کر دیا۔ چند گھنٹوں بعد ان کا فون آ گیا اور بولے کہ فلاں صفحے پر لگانا چاہتے ہیں۔ اس سے پہلے کبھی نہ لکھا فرائیڈے ٹائمز میں۔ اس کے بعد مسلسل رہنمائی اور حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ ایک دفعہ گھنی رات میں فون کیا کہ شہزاد کرسٹینا لیمب تمہارا نمبر مانگ رہی ہے۔ دے دوں کہ نہیں۔ سٹوری کے پیگ پر بہت زور دیتے تھے۔ ہمیشہ یہ سکھاتے رہے کہ پیگ مضبوط اور موزوں ہونا چاہئیے۔ بے کار کی لفاظی نہیں چاہئیے۔ دریا کو کوزے میں بند کرو۔ ٹائٹ لکھو۔ آج تک ان کی باتوں پر عمل کر رہا ہوں۔ بڑے بڑے لوگوں سے پاکستان اور اس سے باہر یہی سنا کہ پاکستان میں اگر کوئی انگریزی لکھتا ہے تو دو ہی ہیں؛ ایک نجم سیٹھی اور دوسرا ایاز امیر۔
ایک روز اچانک برطانیہ کے وزیر اعظم ٹونی بلیئر کو ای میل لکھ ماری کہ جی میں ایک ٹوٹا پھوٹا جرنلسٹ ہوں۔ فرائیڈے ٹائمز کے لیے آپ کا انٹرویو کرنا چاہتا ہوں۔ اگلے ہی روز جواب آ گیا کہ ضرور۔ سوالات بھیجے اور وہ انٹرویو سیٹھی صاحب نے لگایا۔
بی بی سی کے محمد حنیف صاحب۔ کتنا بڑا نام ہے۔ 2003 میں انہیں ایک ای میل لکھی کہ میں بی بی سی اردو کے لیے لکھنا چاہتا ہوں۔ حوصلہ افزائی ہوئی۔ کہا لکھو۔ یہ اور بات کہ نہ لکھ سکا۔ اردو ٹائپنگ نہیں آتی تھی۔ میری نااہلی! قریب 20 سال بعد ان سے رابطہ کیا۔ واٹس ایپ بھیجا۔ ان کے پنجابی کے وی سی (وڈیو کالم) بہت زبردست ہیں۔ تعریف کی۔ کچھ اپنے کالم بھی بھیجے۔ جواب آیا کہ Your columns are great. Keep writing!
یہ ہوتے ہیں عظیم لوگ اور اصلی لکھاری۔ میرے باس اور دوست علی توقیر شیخ نامی گرامی کلائمیٹ چینج ایکسپرٹ۔ قریب 25 برس کام کیا ان کے ساتھ۔ ایک ہی بات بار بار سکھائی کہ کوئی اگر تم سے رابطہ کرے چاہے بذریعہ خط یا ای میل، فوراً جواب دو اور اسی دن۔ نہ دے سکو تو acknowledge کرو اور یہ لکھو کہ بعد میں تفصیل سے جواب دوں گا۔
لڑکا سا تھا۔ مشتاق یوسفی صاحب کی 'آب گم 'کا دیوانہ۔ پسند آئی۔ خط لکھا۔ انہوں نے اپنے ہاتھ سے جواب دیا۔ کیا حسین ہینڈ رائٹنگ۔ ایسے جیسے خطاطی ہوئی ہو۔ 30 برس قبل دہلی خط لکھا استاد امجد علی خان (سرود نواز) کو۔ جواب آیا اور دعوت دی کہ ملنے آؤ۔ 20 برس بعد ملاقات ہوئی۔ بہت خاطر مدارت کی۔ کیا کیا لوگ موجود ہیں!
بی بی سی اردو کا بہت بڑا نام عارف وقار۔ ڈرامہ 'دبئی چلو' کے خالق جس کی بدولت علی اعجاز راتوں رات سٹار بن گیا۔ بس ایک ای میل لکھی جس میں شدید تنقید تھی بی بی سی کے گرتے ہوئے معیار پر۔ کوئی اور ہوتا تو ردی کی ٹوکری کی نذر کرتا۔ لیکن ان سے دوستی ہو گئی۔ اب اردو ان سے سیکھتا ہوں۔ میرا اردو کا تلفظ بہت ہی خراب ہے۔ ان کی وجہ سے کافی بہتر ہو چکا ہے مگر بہت کام باقی ہے۔ میں سست ہو جاؤں تو وہ یاد دلاتے ہیں کہ کوئی کلاسیکل تحریر اب تک پڑھ کر کیوں نہیں بھیجی۔ بھیجوں تو فوراً وائس میسج آتا ہے۔ ہر چیز درست کر دیتے ہیں۔ ایسا ہی تعلق 32 برس سے سرمد صہبائی کے ساتھ ہے۔ یہ سب حضرات عمر میں میرے والد صاحب کے برابر ہیں۔ لیکن ہماری دوستی ہے۔ میں تو اپنے آپ کو ان کی بدولت کائنات کا خوش قسمت ترین آدمی سمجھتا ہوں۔
کچھ جگری دوست بھی ایسے ہیں کہ جواب دینے کی زحمت نہیں کرتے۔ مجھے کُکِنگ کا جنون کی حد تک شوق ہے۔ پکاتا ہوں۔ پیدل چل کر دوستوں میں تقسیم کرتا ہوں۔ جواب تک نہیں آتا۔ یہ بھی عظمت کا ایک معیار ہے۔ اب یہی رائج ہے!
Contributor
محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل Yamankalyan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔