کارکن صحافی دوستو! ہمیں بے توقیر کون کر گیا؟

کارکن صحافی دوستو! ہمیں بے توقیر کون کر گیا؟
صحافی دوستو! کل ایک میڈیا ہاؤس میں کارکنوں کی تنخواہیں مانگنے نیشنل پریس کلب کے سیکرٹری انور رضا اور ان کے ساتھیوں نے حاضری دی اور قابل احترام جناب مظہر اقبال نے وہاں شدید غم و غصے کا اظہار کیا اور ڈیسک بھی بجاتے رہے ہیں۔ مظہر اقبال کی آہ و بکاہ اور چیخ و پکار ایک ویڈیو میں دیکھی جا سکتی ہے۔

مظہر اقبال، انور رضا، شکیل قرار سمیت تمام صحافی کارکنان، میڈیا ورکرز سے سوال ہے کہ کبھی آپ نے سوچا کہ ہمیں اس سطح پر کون لے کر آیا ہے۔ ہماری اتنی بے توقیری کیوں ہوئی ہے۔ ضرور سوچیں، اگر نہیں سوچا تو حالات اس سے زیادہ بدتر ہو سکتے ہیں۔ ہمیں کارکنان کو یونین سے ہٹا کر پریس کلب کی مفاداتی سیاست کی بھینٹ چڑھایا گیا۔ مالکان کے تحفظ کے دھرنے دیے گئے، یونین کی تباہی کر دی گئی۔

یونین اس وقت پانچ حصوں میں تقسیم ہے۔ یہی نہیں بلکہ میڈیا ورکرز کو بھی تقسیم کر دیا گیا ہے۔ جس کے نتائج یہ سامنے آئے ہیں کہ کارکنان کی نمائندگی اور نہ قوت رہی ہے۔ میڈیا کارکنان بکھر کر رہ گئے ہیں۔ پی ایف یو جے کے دھڑوں سمیت نئی میڈیا کارکنان کی تنظیمیں، پریس کلبز اور یونین لیڈر رئیل اسٹیٹ کے کاروبار کی جانب متوجہ ہیں۔

گزشتہ سال ایک فوٹو جرنلسٹ نے جرنلسٹس ہاؤسنگ منصوبے کے نام پر کارکنان سے فی کس تین ہزار سے چھ ہزار کی رقم بٹوری ہے۔ پی ایف یو جے کے پرویز شوکت بھی ایک بڑی جرنلسٹس ہاؤسنگ سوسائٹی کی تشہیر کرتے رہے۔ افضل بٹ نے بھی میڈیا ٹاؤن فیز 2 کے نام پر چکری کے علاقے میں 2 ہزار کنال اراضی کا شوشا چھوڑے رکھا۔ موجودہ نیشنل پریس کلب کی انتظامیہ بھی میڈیا ٹاؤن فیز 2 کی بات کر رہی ہے۔ باخبر صحافی کارکن آگاہ ہیں کہ کئی صحافی لیڈروں نے رئیل اسٹیٹ کا باقاعدہ کاروبار کر رکھا ہے۔

پریس کلب، یونین اور مجموعی طور پر میڈیا کو اپنے کاروبار کے لئے  استعمال کیا گیا ہے۔ صحافی کارکنان کی بے توقیری کا آغاز یہی سے ہوتا ہے۔ جب یونین اور پریس کلب کے عہدے داران کو ادارے سے تنخواہ لینے کی پرواہ نہیں ہوتی ہے بلکہ وہ مالکان سے مل کر کاروبار کریں گے تو پھر ان کے لئے کارکنان جہنم میں جائیں۔ کارکنان کو ادارے سے نکال دیا جائے، تنخواہیں لیٹ ہوں، تنخواہیں نہ ملیں یہ لیڈران کا مسئلہ نہیں ہے۔ لیڈران رئیل اسٹیٹ اور دیگر کاروبار سے کما کر اپنا طبقہ بدل چکے ہیں۔ اب وہ کارکن نہیں رہے ہیں تو کارکنوں کے لئے کیوں بولیں گے۔

یہ بات اب میڈیا ورکرز کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ضرور اس بات کا مشاہدہ کریں۔ میڈیا ورکرز ضرور دیکھیں کہ ایک شخص یونین کو چھوڑ کر پریس کلب کی صدارت کے لئے لاکھوں روپیہ خرچ کیوں کر رہا ہے۔ اس لئے کہ یونین میں صرف کارکنوں کے مسائل ہیں، احتجاج ہے، مظاہرے ہیں جبکہ پریس کلب میں فنڈز، کئی منصوبے ہیں۔ پیسہ کمانے کی جگہ تو پریس کلب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مفاد پرست پریس کلب کے الیکشن میں لاکھوں روپیہ لگاتے ہیں اور اپنی الیکشن کمپین سپانسر بھی کرواتے ہیں کہ جیت گیا تو سپانسر کے لئے بھی پیکج ہو گا۔

خدائے واحد کی قسم راقم نے تین سو روپے میں پریس کلب کے الیکشن لڑے ہیں۔ راقم کا یونین اور پریس کلب کا آخری الیکشن 2005 اور 2006 کا تھا۔ اس کے بعد انوسٹرز آ گئے اور پریس کلب کے الیکشن میں لاکھوں کے اخراجات کئے جانے لگے۔ جس کے باعث خود کو یونین اور پریس کلب سے الگ کر لیا۔ آج جب میڈیا ہاؤسز سے کارکنوں کو فارغ کیا جا رہا ہے، تنخواہیں نہیں دی جارہی ہیں۔ کارکنوں کے چولہے ٹھنڈے پڑے ہیں مگر مفادت پرست لیڈر منظر سے غائب ہیں۔ اس ساری صورتحال کو دیکھتے ہوئے کارکنوں کے اتحاد اور کارکنوں کی نئی لیڈرشپ ابھارنے کے لئے دوبارہ سے جدوجہد شروع کی ہے، تاکہ کارکن صحافی کی توقیر بحال کی جائے۔ چہرے بے نقاب کیے جائیں۔ کارکن جان سکیں کہ ہمیں بے توقیر کون کر گیا ہے۔

مصنف ایک لکھاری اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے کارکن بھی ہیں۔