ایک جانب چودھری سالک نے لندن میں نواز شریف سے ملاقات کی ہے اور دوسری جانب آج وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الہیٰ سے ملاقات ہوئی ہے۔ اگرچہ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے کچھ روز قبل کہا گیا تھا کہ پرویز الہیٰ کو وزارت اعلیٰ کا امیدوار نہیں بنائیں گے تاہم میں سمجھتا ہوں نئے سیٹ اپ میں پرویز الہیٰ پنجاب میں وزارت اعلیٰ کے لیے پی ڈی ایم کے مشترکہ اور متفقہ امیدوار ہو سکتے ہیں۔ اسحاق ڈار نے انہیں یہ پیغام دیا ہے کہ اگر ملک میں سیاسی عدم استحکام کو ختم کرنے کے لیے وہ اسمبلیاں نہیں توڑتے تو اگر پی ٹی آئی ان کی حمایت سے دستبردار بھی ہو جاتی ہے تو (ن) لیگ انہیں سپورٹ کرے گی۔ پرویز الہیٰ کی اس وقت ڈیمانڈ بہت بڑھ گئی ہے۔ یہ کہنا ہے سینیئر صحافی اعجاز احمد کا۔
نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبر سے آگے' میں گفتگو کرتے ہوئے اعجاز احمد کا کہنا تھا کہ اس وقت حکومت ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے کیونکہ سیاسی عدم استحکام عالمی سطح پر بھی پاکستان کے لیے بہت بڑا مسئلہ ثابت ہو رہی ہے۔ عمران خان کا بھی اہم کردار ہے اس معاملے میں۔ اسحاق ڈار نے صدر عارف علوی کے ذریعے عمران خان کو یہ پیغام بھجوایا ہے کہ وہ بیرون ملک مقیم اپنے سپورٹرز سے کہیں کہ وہ زرمبادلہ پاکستان بھجوائیں۔ مونس الہیٰ عمران خان کے ساتھ جانا چاہتے ہیں مگر پرویز الہیٰ کو یہ مشکل درپیش ہے کہ وہ پنڈی والوں کو کیا جواب دیں گے۔
مرتضیٰ سولنگی نے پروگرام میں خبر بریک کی کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے آج ارشد شریف کی والدہ سے راولپنڈی میں ملاقات کی ہے۔ نئے آرمی چیف کی جانب سے پہلے ہی ہفتے میں یہ ملاقات بہت مثبت قدم ہے۔ ان کے ذرائع کے مطابق یہ ایک نجی ملاقات تھی جس کی کوئی تصویر، ویڈیو یا پریس ریلیز جاری نہیں کی گئی۔ اس پر ردعمل دیتے ہوئے اعجاز احمد کا کہنا تھا کہ اس ملاقات کا مقصد ان کو یہ پیغام دینا تھا کہ فوج کا ادارہ ان کے خلاف نہیں ہے۔ آرمی چیف چاہتے ہیں کہ ادارے کے خلاف سوشل میڈیا پر جاری پراپیگنڈے کو رکوایا جا سکے یا کم کیا جا سکے۔
معروف صحافی خرم حسین کا کہنا تھا کہ ملک کو فی الحال ڈیفالٹ کا کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن اتنا ضرور ہے کہ ہمیں ادائیگیوں کے معاملے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ اگر فوری طور پر آئی ایم ایف پروگرام شروع نہیں ہوتا یا کسی دوست ملک سے 2 سے 3 ارب ڈالر کی امداد نہیں ملتی تو فروری مارچ تک حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔ دوسرے ملکوں سے امداد لینے میں اگر پاک افواج کو انوالو کرنا ناگزیر ہے تو میرا خیال ہے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کیونکہ فوج پہلے بھی امداد کے سلسلے میں دوسرے ملکوں کے ساتھ بات چیت کرتی رہی ہے۔ اس وقت درآمدات پر ادائیگیاں رکی ہوئی ہیں اور پوری دنیا میں پاکستان کی معیشت کے بارے میں منفی پیغام جا رہا ہے۔ جب امداد کے لیے پاکستان ان ملکوں کے پاس جائے گا تو وہ ضرور سوچ میں پڑ جائیں گے۔
میرے دریافت کرنے پر وزیراعظم شہباز شریف کے قریبی چند وزرا نے بتایا کہ معیشت والے معاملات انہوں نے مکمل طور پر اسحاق ڈار کے حوالے کر رکھے ہیں۔ انہیں روزانہ کی بنیاد پر بریفنگ نہیں دی جا رہی اور نہ ہی انہوں نے کبھی بریفنگ مانگی ہے۔ دوسری جانب اسحاق ڈار صاحب امریکہ، چین اور سعودی عرب کے سفیروں کے ذریعے سے آئی ایم ایف سے پاکستان کی سفارش کروا رہے ہیں۔ اگر بات یہاں تک پہنچ چکی ہے تو میرا خیال ہے وزیراعظم کو چاہئیے کہ معیشت والے معاملے کو اپنے ہاتھ میں لیں۔
پروگرام کے میزبان رضا رومی تھے۔ 'خبر سے آگے' ہر پیر سے ہفتے کی شب 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے براہ راست پیش کیا جاتا ہے۔