Get Alerts

اگر ٹرسٹ ڈیڈ پر مریم اور حسین نواز کے دستخط موجود ہیں تو دستاویزات جعلی نہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ

اگر ٹرسٹ ڈیڈ پر مریم اور حسین نواز کے دستخط موجود ہیں تو دستاویزات جعلی نہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ
اسلام آباد ہائیکورٹ نے العزیزیہ اور ایون فیلڈ اور ریفرنس میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر مریم اور حسین نواز کے دستخط ٹرسٹ ڈیڈ پر موجود ہیں اور وہ اسے تسلیم کرتے ہیں تو دستاویزات جعلی نہیں ہیں۔
تفصیل کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل بنچ نے آج ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں سزا کیخلاف اپیل اور بریت کی متفرق درخواستوں پر سماعت کی۔
جسٹس عامر فاروق نے سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر ٹرسٹ ڈیڈ پر مریم نواز اور حسین نواز کے دستخط ہیں تو یہ جعل سازی نہیں ہے۔
نیب پراسیکیوٹرکا کہنا تھا کہ ہم نے ٹرائل کورٹ کے دوران یہ ثابت کیا تھا کہ ٹرسٹ ڈیڈ جعلی ہے۔ مریم نواز نے عدالت عظمیٰ میں متفرق درخواستوں کے ذریعے ٹرسٹ ڈیڈ جمع کرائی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ جب مریم نواز جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئیں تو انہوں نے کہا تھا کہ یہ دستاویزات درست ہیں۔ ان کی کی جانب سے ان دستاویزات کو تسلیم کیا گیا تھا۔
اس پر معزز عدالت نے نیب پراسیکیوٹر سے پوچھا کہ جب آپ ٹرسٹ ڈیڈ کو جعلی کہتے ہیں تو اس کا کیا مطلب ہے؟ ٹرسٹ ڈیڈ کا فونٹ کیا تھا، اس پر بعد میں آتے ہیں۔ کیا کہیں سے ثابت ہوا کہ مریم نواز کے اس ڈیڈ پر دستخط نہیں ہیں؟ اس کا جواب دیتے ہوئے نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ایسا کہیں ثابت نہیں ہوا۔
جسٹس عامر فاروق نے پوچھا کہ کیا یہ ثابت ہوا کہ اس پر حسین نواز کے دستخط نہیں؟ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ نہیں ایسا بھی کہیں ثابت نہیں ہوا۔
اس پر جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ اگر ایسا ہے تو پھر دستاویز جعلی نہیں، ’پری ڈیٹڈ‘ کہلائے گی۔ ٹرسٹ ڈیڈ پر دونوں دستخط کرنے والے آج بھی کہتے ہیں کہ یہ ان کی ڈیڈ ہے۔ کیپٹن (ر) صفدر کو صرف اس بات پر سزا ہوئی کہ یہ ان دستخطوں کے گواہ تھے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ ہم نے دیکھنا ہے کہ ملزموں کیخلاف شواہد یا شہادتیں موجود ہیں یا نہیں؟ عدالت نے صرف اسی بنیاد پر سزا کے خلاف اپیل کا فیصلہ کرنی ہے۔
جسٹس عامر فاروق نے مریم نواز شریف کے وکیل سے کہا کہ اگر آپ ثابت کر دیں کہ استغاثہ جرم ثابت کرنے میں ناکام ہوئی تو باقی باتوں کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ ثبوت موجود نہ ہوئے تو پاناما کیس ایک طرف رہے گا ہمارا فیصلہ کچھ اور ہوگا۔ اگر ثبوت موجود ہوئے تو بھی یہ عدالت اپنا فیصلہ آزادانہ دے گی۔
انہوں نے کہا کہ عدالت نے دیکھنا ہے کہ نیب اپنا کیس شواہد سے ثابت کر سکا یا ہے نہیں۔ آپ صرف یہ ثابت کر دیں نیب کیس ثابت نہیں کر سکا باقی کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔