ایون فیلڈ ریفرنس: اسلام آباد ہائیکورٹ نے نواز شریف کی سزا کالعدم قرار دیدی

وکیل امجد پرویز نے دلائل دیے کہ تحقیقاتی ایجنسی نے اثاثوں کے حصول کے وقت معلوم ذرائع آمدن سے متعلق تحقیقات کرنا ہوتی ہیں۔ نیب نے ثابت کرنا تھا کہ نوازشریف نے پراپرٹیزکی خریداری کیلئے ادائیگی کی۔سب سے اہم بات ان پراپرٹیزکی اونر شپ کا سوال ہے۔ نہ توزبانی، نہ دستاویزی ثبوت ہےکہ یہ پراپرٹیزکبھی نوازشریف کی ملکیت رہی ہوں۔ بچوں کے نوازشریف کے زیرکفالت کا بھی کوئی ثبوت موجود نہیں۔ ان تمام چیزوں کو استغاثہ کو ثابت کرنا ہوتا ہے۔ کوئی ثبوت نہیں کہ پراپرٹیز نوازشریف کی ملکیت یا تحویل میں رہیں۔ کورٹ نے مفروضے پر سزادی اور فیصلے میں ثبوت کے بجائے عمومی بات لکھی۔

ایون فیلڈ ریفرنس: اسلام آباد ہائیکورٹ نے نواز شریف کی سزا کالعدم قرار دیدی

 اسلام آباد ہائی کورٹ  نے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا کالعدم قرار دیتے ہوئے مقدمے میں سے بری کر دیا۔ احتساب عدالت نے نواز شریف کو دس سال کی سزا سنائی تھی۔

ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف نواز شریف کی اپیل پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سماعت کی۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف لیگل ٹیم کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے ان میں اعظم نذیر تارڑ، امجد پرویز اور دیگر موجود تھے۔ نیب پراسکیوشن ٹیم بھی کمرہ عدالت میں موجود رہی۔

نواز شریف کے وکیل امجد پرویز نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کو سیکشن 9 اے سے بری قرار دیا تھا۔ اس کیس میں اب بس سیکشن 9 اے 5 بچا ہے۔ جو آمدن سے زائد اثاثہ جات سے متعلق ہے۔

عدالت نے امجد پرویز نیب آرڈیننس کا سیکشن 9 اے 5 پڑھ کر سنائی، انہوں نے عدالت کو بتایا کہ سیکشن 9 اے 5 کے تحت استغاثہ کو کچھ حقائق ثابت کرنا ہوتے ہیں۔ سیکشن 9 اے 5 کا تقاضہ ہے کہ ملزم کو پبلک آفس ہولڈر ثابت کیا جائے۔

انہوں نے بتایا کہ سیکشن 9 اے 5 کا تقاضا ہے کہ ملزم کو بینامی دار ثابت کیا جائے۔ سیکشن 9 اے 5 کا تقاضا ہے کہ ثابت کیا جائے کہ ملزم کے اثاثے اس کے آمدن کے ذرائع سے مطابقت نہیں رکھتے۔

وکیل امجد پرویز نے نیب آرڈیننس کی مختلف شقیں بھی پڑھ کر سنائیں۔

امجد پرویز ایڈووکیٹ نے مؤقف اپنایا کہ نیب آرڈیننس میں بے نامی دار لفظ کی تعریف کی گئی ہے۔ جس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ میرے خیال میں سزا معطلی بھی اسی بنیاد پر ہوئی تھی۔ سزا معطلی کے فیصلے میں ہم نے سپریم کورٹ کے متعدد فیصلوں کا سہارا لیا تھا۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ بعد ازاں سپریم کورٹ نے اپنے فیصلوں میں مزید وضاحت کی ہے، اس پر ہماری معاونت کریں۔

امجد پرویز نے دلائل دیے کہ تحقیقاتی ایجنسی نے اثاثوں کے حصول کے وقت معلوم ذرائع آمدن سے متعلق تحقیقات کرنا ہوتی ہیں۔ معلوم ذرائع آمدن کا اثاثوں کی مالیت سے موازنہ کرنا ہوتا ہے۔

انہوں نے مؤقف اپنایا کہ یہ مقدمہ ایسا ہے، جس میں اس کے مندرجات ہی ثابت نہیں کیے گئے۔ انہوں نے جرم کے تمام جز ثابت کرنے تھے، نہیں کیے۔

سابق وزیراعظم کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نیب نے ثابت کرنا تھا کہ نوازشریف نے پراپرٹیزکی خریداری کیلئے ادائیگی کی۔سب سے اہم بات ان پراپرٹیزکی اونر شپ کا سوال ہے۔ نہ توزبانی، نہ دستاویزی ثبوت ہےکہ یہ پراپرٹیزکبھی نوازشریف کی ملکیت رہی ہوں۔ بچوں کے نوازشریف کے زیرکفالت کا بھی کوئی ثبوت موجود نہیں۔ ان تمام چیزوں کو استغاثہ کو ثابت کرنا ہوتا ہے۔ کوئی ثبوت نہیں کہ پراپرٹیز نوازشریف کی ملکیت یا تحویل میں رہیں۔

امجد پرویز کے دلائل پر چیف جسٹس عامر فاروق نے سوال کیا کہ یہ سارا پراسیکیوشن کا کام ہے؟ اس پر امجد پرویز نے کہا کہ جی بالکل یہ سب پراسیکیوشن نے ہی ثابت کرنا ہوتا ہے۔ کورٹ نے مفروضے پر سزادی اور فیصلے میں ثبوت کے بجائے عمومی بات لکھی۔عدالت نے کہا کہ مریم نواز بینفشل اونر تھیں اور نوازشریف کے زیرکفالت بھی تھیں۔ عدالت نے کہا کہ بچے عمومی طورپروالد کے زیرکفالت ہوتے ہیں۔

عدالت نے امجد پرویز کے دلائل مکمل ہونے کے بعد کیس کا مختصر فیصلہ سنایا اور نواز شریف کو ایون فیلڈ ریفرنس میں سنائی گئی سزا کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں بری کردیا۔

دوسری جانب نیب نے فلیگ شپ ریفرنس میں بھی نواز شریف کی بریت کے خلاف اپیل واپس لے لی۔ عدالت نے اپیل واپس لینے کی بنیاد پر خارج کر دی۔