نور مقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی ذہنی صحت سے متعلق میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کی درخواست سے متعلق تحریری فیصلہ جاری کر دیا گیا ہے۔ 6جنوری 2022 بروز جمعرات کو ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے اس کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کی درخواست پر تحریری حکم نامہ جاری کیا۔ چار صفحات پر مشتمل حکم نامے میں ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے 5 وجوہات کی بنا پر مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی ذہنی صحت سے متعلق میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کی درخواست کو مسترد کردیا۔
1۔ ملزم اپنے والدین کے ساتھ ٹرائل کا سامنا کرتا رہا ہے اور اس دوران ظاہر جعفر کے والدین یا کسی عزیز نے میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کی درخواست دائر نہیں کی۔
2۔ تحریری فیصلے کے مطابق 8 دسمبر2021 کو بھی ملزم ظاہر جعفر کا طبی معائنہ ہوا اور اس دوران کوئی شواہد نہیں ملے کہ ملزم کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں۔
3۔ میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کی درخواست کے ساتھ ظاہر جعفر کا کوئی سابقہ میڈیکل نہیں لگایا گیا جو ظاہر کرتا ہو کہ انھیں اس نوعیت کا کوئی مسئلہ ہے۔
4۔ نور مقدمہ کا ٹرائل اب اختتام پذیر ہونے والا ہے اس لیے یہ درخواست مسترد کی جاتی ہے۔
5۔ ملزم کو نور مقدم قتل کے مقدمے میں جب جائے حادثہ سے گرفتار کیا گیا تھا تو اس کا میڈیکل چیک اپ کروایا گیا تھا، جس میں وہ ذہنی اور جسمانی طور پر فٹ تھا۔
یاد رہے کہ ملزم اس وقوعہ سے پہلے ایک نجی سکول میں بچوں کی کونسلنگ بھی کرتا رہا ہے اس کے علاوہ وہ اپنے والد اور اس مقدمے کے شریک ملزم ذاکر جعفر کی کمپنی میں ایک عہدے پر بھی فائز رہا ہے۔
عدالت اس مقدمے کو جلد از جلد اپنے منطقی انجام تک پہنچانا چاہتی ہے۔ عدالت نے اس مقدمے کی سماعت پندرہ جنوری تک ملتوی کر دی۔ اگلی سماعت پر نور مقدم کے والد شوکت مقدم کا بیان قلمبند کیا جائے گا اور اسی روز ان پر ملزمان کے وکلا جرح بھی کریں گے۔
صدیوں میں شاید ایسے فیصلے ہوتے ہیں جہاں انصاف ملتا ہو اور وقت پر ملتا ہو، نہیں تو ایسے واقعات میں غریب تو ساری زندگی اسی اذیت اور تکلیف میں گزار دیتا ہے جب وہ ملزم کو سرےعام اپنی نظروں کے سامنے دندناتے گھومتا پھرتا دکھتے ہیں۔ لیکن یہاں تو دونوں طرف پیسے والے اور اعلیٰ عہدوں پر فائز امیر طبقے کے لوگ ہیں جو اپنے انصاف کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔
خیر ایسے اندوہناک اور انسانیت کے خلاف واقعات میں فیصلے امیر اور غریب طبقے سے بالاتر ہونے چاہیے۔ اور ایسی سخت سے سخت سزائیں مقرر کی جائیں کہ آنے والی 7 نسلیں بھی اس عبرت ناک سزا کو یاد رکھیں اور ایسے گناہ کرنے تو کیا اس کا تصور کرنے سے پہلے بھی سو بار سوچیں۔
اور اس حوالے سے نا صرف ریاست بلکہ قانون کے رکھوالے، قانون بنانے والے، انسانی حقوق پرمشتمل دیگر ادارے، تنظیمیں اور انفرادی طور پر ہم سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ ریاست ایسے آئین تشکیل دے جس میں اپنی قوم کو تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانی کروا سکے، قانون بنانے والے ایسے قوانین لاگو کریں کہ ہر شہری خود کو محفوظ محسوس کرے۔
انسانی حقوق پر مشتمل ادارے اور تنظیمیں ان آئین اور قوانین کی پاسداری کروائیں اور ہر شہری کو اس سے روشناس کروائیں اور اس کے لیے ہر ممکن اقدامات کریں۔ اور ہم سب کو اپنے حقوق اور انصاف کی فراہمی کے لئے ہر مقام پر اپنی آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک ہم خود اپنے حق کیلئے آواز نہیں اٹھائیں گے کوئی آپ کو انصاف نہیں دلا سکے گا۔
اس دیس میں لگتا ہے عدالت نہیں ہوتی
جس دیس میں انسان کی حفاظت نہیں ہوتی
ہر شخص سر پہ کفن باندھ کے نکلے
حق کے لیے لڑنا تو بغاوت نہیں ہوتی
مصنفہ سینیئر صحافی ہیں اور ملک کے متعدد ٹی وی چینلز پر کام کر چکی ہیں۔ انٹرنیٹ پر ان کے مختلف ویب سائٹس پر مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں۔