ایک زمانہ تھا کہ جہانگیر ترین عمران خان کے دوست خاص اور دست راست تھے۔ انکی دولت عمران خان کے لئے نچھاور تھی جبکہ وزیر اعظم نے انکی دی ہوئی گاڑی 9 سال استعمال کی۔ ایک ایک ممبر اسمبلی اپنے جہاز پر ٹرانسپورٹ کیا۔ اس دوران جہانگیر ترین مریم نواز سے لے کر نواز شریف تک عمران خان کے ہر مخالف پر تابڑ توڑ حملے کرتے۔
لیکن پھر معاملات بگڑ گئے، کام نااہلی سے شروع شوگر تحقیقات پر آکر اپنے نقطہ ابال پر آگیا۔ اور مختلف صحافیوں کی رپورٹس کے مطابق جہانگیر ترین پر انکشاف ہوا کہ وزیر اعظم عمران خان انہیں فارغ کر چکے ہیں۔
اسکے بعد تحریک انصاف کا یہ جادوگر خاموشی سے لندن جا بیٹھا۔ اسکی خاموشی اسکے زبان کھلنے کے ڈر سے زیادہ پر اثر ثابت ہو رہی ہے۔ کسی کو نہیں معلوم کہ جہانگیر ترین کیا سوچ رہے ہیں۔ کبھی کبھار ان سے بات کرنے والے اکا دکا صحافیوں ان کے ارادوں کے بارے میں مزید پر اسراریت پھیلانے کا باعث بنتے ہیں۔
درمیان میں یہ خبریں بھی آئیں کہ جہانگیر ترین اور نواز شریف کے درمیان رابطے ہو رہے ہیں اور نواز شریف نے جہانگیر ترین سے ملاقات سے قبل چند شرائط رکھی ہیں۔ جن میں سے ایک یہ ہے کہ وہ ملاقات سے قبل ایک پریس کانفرنس کریں جن میں ان سب کارستانیوں کا ذکر ہو جو موجودہ حکومت کو اقتدار دلانے کے لئے کی گئیں۔
حکومت کی جانب سے ان تمام خبروں کو دیوانے کی بڑ قرار دے کر مسترد کردیا جاتا تھا۔ تاہم اب اس حوالے سے ایک اہم تصدیق سامنے آئی ہے جب ن لیگ کی اعلیٰ قیادت میں سے کسی نے ان رابطوں کے بارے میں تصدیق کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کی ڈگمگاتی حکومت کے حوالے سے بنی ناموافق فضا کی کثافت میں مزید اضافہ کردیا ہے۔
ن لیگ کے رہنما اور پنجاب سے پارٹی کے صدر رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ اس حکومت نے اپنے ساتھ اتنا کچھ کرلیا ہے کہ اپوزیشن کے خلاف تحریک چلانے کے لئے بہت مدد مل چکی ہے۔ اتنے ایشوز کھٹے ہو چکے ہیں کہ اپوزیشن اس کے خلاف تحریک چلا سکتی ہے۔
انہوں نے جہانگیر خان ترین اور نواز شریف کے درمیان ہوئے رابطوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان دونوں کے درمیان براہ راست تو ملاقات فی الحال نہیں ہوئی لیکن کچھ شخصیات کے ذریعے ان دونوں کے درمیان نہ صرف رابطہ ہوا ہے بلکہ پیغام بھی بھیجے گئے ہیں۔
رانا ثنا اللہ جو معنی خیز جملوں میں سیاسی بات کرنے کے حوالے سے مشہور ہیں انکا کہنا تھا کہ جب پارٹی قیادت چاہے گی مریم نواز ایکٹو ہوجائیں گی۔
انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ نوز شریف اس وقت ملک سے باہر اپنا علاج تو کروا رہے ہیں لیکن ساتھ ساتھ اس حکومت کا علاج بھی کر رہے ہیں۔
عام طور پر لندن میں حکومتوں کے علاج تب ہی ہوا کرتے ہیں جب انہیں اکھاڑ پھینکنا مقصود ہو۔ نواز شریف حکومت کے وقت 2014 کے دھرنے کے وقت بھی لندن پلان کے بارے میں چرچا ہوا تھا۔ جن کے چند کردار بھی سامنے آئے تھے۔ جن میں اینکرز، مذہبی سیاستدان اور موجودہ حکمران جماعت کے مرکزی قائدین شامل تھے۔
یاد رہے کہ میڈیا حلقوں میں عمران خان حکومت کے فیل ہونے کے بعد اسکی رخصتی کی اہمیت پر بہت زور دیا جا رہا ہے جبکہ مسلسل اسکے جانے کی پیش گوئیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ نواز ترین رابطے بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ظاہر ہوتی ہے۔