اسلام علیکم
عزیزان من محکمہ پولیس کے شیرو
میں ایک پولیس افسر ہوں 32 سال آپ کی خدمت کرتے ہو گئے ہیں۔ 54 سال میری عمر ہو چکی ہے، اس عرصہ میں بہت سی بہاریں اور خزائیں دیکھیں، اپنے ساتھی شہید ہوتے، فوت ہوتے دیکھے ہیں۔ تبادلے، تنزلیاں، ترقیاں، معطلی، برخاستگی، جیلیں اور انکوائریاں دیکھیں۔ بہت کچھ دیکھا۔ ٹانگوں، گھوڑوں پر ریڈ کیا کرتے تھے۔ 625 روپے تنخواہ پر بھرتی ہوئے آج الحمداللہ 50 ہزار سے اوپر لے رہا ہوں۔
اصل مقصد بات کرنے کا یہ ہے کہ ہم جب بھرتی ہوئے تب سے پولیس ریفارمز کی باتیں ہو رہی ہیں، آج ہم زندگی اور ملازمت کی شام میں ہیں۔ آج تک ہم نے محکمہ پولیس تبدیل ہوتے نہیں دیکھا۔ وہی نفری کی کمی، اسلحہ خراب، گاڑیاں ٹوٹی، رہائشیں گندی۔ اور گھر سے 35/35 کلومیٹر دور تبادلے۔ اپنی جیب سے پیٹرول ڈال کر گشت کرو۔ ریڈ کے لئے مدعی سے گاڑی لو، افسران کی جھڑکیں۔ کام کرو تب زیادہ ذلیل، جب نہ کرو تب تو ہونا ہی ہے۔ ہر ماہ کارگردگی کا سیاپا۔ اشتہاری، عدالتی مفرور پکڑنے کی جعلی رپٹ لکھو۔ صرف جھوٹ اور جھوٹ۔ پی او کلرک سے مل کر جعلی اشتہاری کاؤنٹ کرواؤ۔ ایک سگریٹ چرس جس سے پکڑی گئی ہے اس پر 9c کا مقدمہ درج کروا دو۔ موٹر سائیکل سوار روزانہ 25، 25 بند کرواؤ۔ ریکاڈ یافتہ ڈاکو پکڑ کر حوالات میں بند کردو۔ جہاں ڈکیتی ہو ان کو نامزد FIR کر دو۔
ویلفیئر کا نام کبھی ماتحت نے نہیں سنا، قرضہ کی درخواست دیں خیر سے خارج ہو جاتی ہے۔ کبھی میڈیکل بل پاس نہیں ہوا۔ شہدا کی بیوہ دفاتر کے چکر کاٹ کاٹ کر ذلیل ہوتی ہیں۔ کلرک کتے بھیڑیے کی طرح انہیں دیکھتے ہیں۔ جو افسر رشوت ٹکا کر لیتا ہے، جعلی کارکرگی بناتا ہے، افسران کی ٹیسی کرتا ہے وہ افسران کا ہردل عزیز ہوتا ہے۔ ہمارے جیسے کامبڑ گنے جاتے ہیں۔
افسران بالا ماتحت افسران کو ماں بہن کی گالیاں دیتے ہیں۔ ہم بے غیرت ضمیر بن کر سنتے ہیں۔ کر بھی کیا سکتے ہیں۔ میں نے عمرہ کی چھٹی مانگی نہیں ملی، واپس آیا تو برخاست کر دیا گیا۔ سات دن کا میڈیکل بھجوایا نا منظور۔ سات سال سروس کاٹ لی گئی۔ آخر کب تک یہ سسٹم چلے گا؟ کون آئے گا؟ کب آئے گا خمینی جو انقلاب لائے گا۔
ایک پولیس افسر کینسر سے مر گیا، محکمہ نے غیر حاضر ی پر ڈسمس کر دیا۔ جہاں 32 سال سے نہیں سدھرتے دیکھا اب کیا سدھرے گا۔ صرف ایک تبدیلی آئی ہے، سپاھی کی فیس 100 ہوتی تھی اب 500 ہوگئی ہے۔ تھانہ محرر سے بڑھ کر محکمہ میں کوئی خبیث نہیں ہوتا۔ بینڈی منشی اس سے بھی بدتر ہوتے ہیں، جنہیں نہ کسی کی عمر کا لحاظ نہ ڈیوٹی کا 16، 16 گھنٹے ڈیوٹی لیتے ہیں۔ افسران کے چچمے ہیں اگر کہو تو جواب ملتا ہے، بابا جی نئیں کرنی تے چھڈ دیوو، کسی ہور نوں موقع دیوو۔ انہیں کیا پتہ یہ بابا دس بندوں کا واحد کفیل ہے۔
جس کو اختیار ملتا ہے وہ پہاڑ پر چڑھ جاتا ہے، گھر میں کھبی حقہ نصیب نہیں ہوا، یہاں گولڈ لیف پیتے ہیں اور سائلین سے گولڈ لیف کی ڈبی لے کر کینٹین پر بیچ دیتے ہیں۔
میں ایک ماہ سے کرونا کی مرض میں مبتلا ہوں، کسی افسر کے پاس وقت نہیں تیمار داری کرنے کا۔ اپنی جیب سے تمام علاج کا خرچہ کیا ہے۔ کوئی ویلفئیر سے ایک پیناڈول (Panadol) بھی نصیب نہیں ہوئی، مر جائیں تو جھنڈے میں لپیٹ کر تابوت گھر بھجوا دیتے ہیں۔ اللہ ہم سب کا بھلا کرے۔
وسلام
پنجاب پولیس کا بیمار ملازم آغا ذوالقرنین درانی ہیڈ کانسٹیبل پولیس گوجرانوالہ
نوٹ: نیا دور نے جب آغا ذوالقرنین درانی سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ سانس کے مسئلے اور شدید کھانسی کی وجہ سے فون پر بات کرنا ممکن نہیں، واٹس ایپ پر انہوں نے بتایا کہ میں نے 3 دہائیوں تک محکمے کی اور عوام کی خدمت کی اور آج جب کرونا کے محاذ پر لڑتے ہوئے خود بیمار ہو کر زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا ہوں تو میرے محکمے نے مجھے لاوارث چھوڑ دیا ہے۔