پاکستان کی پہلی خاتون ’’فوڈ رائیڈر‘‘

رباب نے یہ ثابت کیا ہے کہ کوئی پیشہ بھی صرف مردوں کے لیے ہی مخصوص نہیں

پاکستانی خواتین نے دنیا پر یہ ثابت کیا ہے کہ کوئی شعبہ ایسا نہیں جو صرف مردوں کے لیے مخصوص ہو۔ پاکستان خواتین خودمختار ہو رہی ہیں اور مواقع تک رسائی حاصل کرنے کے لیے عائد پابندیوں کو خاطر میں نہیں لا رہیں جس کے باعث جنس سے منسلک کیا جا چکا ان کا روایتی کردار محدود ہوا ہے۔

پاکستان کی قریباً نصف آبادی خواتین پر مشتمل ہے لیکن کارپوریٹ ورلڈ میں ان کا حصہ محض 15 سے 20 فی صد تک ہے جس سے صنفی عدم توازن کا واضح اظہار ہوتا ہے۔

رباب جبلانی بھی ایک ایسی ہی خاتون ہیں جنہوں نے ایک ایسے سماج کے آگے جھکنے سے انکار کیا جو خواتین پر پیشوں کے انتخاب کے تناظر میں مختلف پابندیاں عائد کرتا ہے۔

رباب جبلانی ایک نجی کمپنی سے بطور فوڈ رائیڈر منسلک ہیں، یہ ایک ایسا پیشہ ہے جوصرف اور صرف مردوں سے مخصوص کر دیا گیا ہے۔ وہ اپنی اور اپنے خاندان کی گزر بسر یقینی بنانے کے لیے جزوقتی طور پر فوڈ ڈلیوری رائیڈر کے طور پر کام کر رہی ہیں اور وہ اپنی اس ملازمت سے مطمئن ہیں۔

پاکستانی معاشرے میں اول تو خواتین کا موٹر سائیکل چلانا اور ایسی ملازمت کرنا مناسب خیال نہیں کیا جاتا جو طویل عرصہ سے صرف مردوں سے مخصوص ہے۔ رباب جبلانی ان روایتی تصورات کو خاطر میں نہیں لائیں۔



رباب جبلانی اور آنے والے دنوں میں اس پیشے کا رُخ کرنے والی بہت سی خواتین کے لیے فوڈ ڈلیوری کی ملازمت کا بہترین پہلو یہ ہے کہ یہ آسان تو ہے ہی بلکہ اس میں خواتین خود کو محفوظ تصور کرتی ہیں۔

رباب جبلانی کہتی ہیں،’’میں ہمیشہ یہ سوچا کرتی تھی کہ خواتین آمدو رفت کے لیے موٹرسائیکل چلا سکتی ہیں تو فوڈ ڈلیوری کی ملازمت ان کے لیے غیر موزوں کیوں ہے؟ میں نے رائیڈر کی ملازمت کا اشتہار دیکھا اور ملازمت کے لیے درخواست جمع کروا دی۔ چند ہی روز میں مجھے رجسٹریشن کے لیے بلا لیا گیا اور یوں میری امیدوں کے سفر کا آغاز ہوا۔‘‘