خطے کے بحران میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟






عمران خان کی حکومت مشکلات سے دوچار، پے درپے بحران پیدا ہو رہے ہیں

تحریک انصاف کی پاکستان میں حکومت کے ابتدائی سات ماہ سیاست، معیشت اور انتظامی امور میں فاش غلطیوں سے عبارت رہے ہیں۔ تحریک انصاف پر حکومتی امور چلانے کے معاملے میں بڑھتی ہوئی تنقید اور میڈیا پر جاری کریک ڈاون نے احتساب کے نعرے کو بھی دھندلا دیا ہے، تمام سیاسی مخالفین متحد ہو گئے ہیں اور گزشتہ سات ماہ سے پارلیمان میں جمہوریت کا تماشہ بنا ہوا ہے۔

وزیراعظم عمران خان اپنی ٹیم کے ہمراہ پاکستان کو درپیش معاشی مشکلات سے نبرد آزما تھے کہ 14 فروری کو پلوامہ حملہ ہو گیا۔ اس سانحہ کے بعد کے حالات پاکستان اور عمران خان دونوں کے لیے اچھے رہے۔ دفاعی ہیئت مقتدرہ  کے ساتھ ایک صفحے پر ہونے کی وجہ سے حکومت کے سیاسی، سفارتی اور خصوصا حملے کے بعد  کے موقف کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر سراہا گیا۔

پاکستان کی افواج کا امیج 71ء  کے بعد پہلی مرتبہ عوام میں مقبولیت کی بلندی پر ہے جب کہ عمران خان نے پہلی بار بھارت اور بیرونی دنیا میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا  بطور کرکٹر نہیں بلکہ ایک رہنما اور مدبر سیاست دان کے طور پر منوایا ہے۔

بھارت میں رواں برس مئی میں ہونے جا رہے عام انتخابات تک ہمیں مسلسل جنگ کی دھمکیوں کا سامنا رہے گا جیسا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے پانچ مارچ کو اس بات کی تصدیق بھی کی۔ پاکستان سفارتی محاذ پر بھی اس وقت غیر روایتی طور پر بے حد متحرک اور فعال  ہے جب کہ اطراف کی مسلح افواج انتہائی چوکنا ہیں۔

حکومت نے “خاموش سفارت کاری” کے ذریعے یہ باور کروا دیا ہے کہ سفارتی محاذ پر اس سے کوئی غلطی سرزد ہونے کا امکان کم ہے اور پارلیمان میں اس بات کا اعادہ کیا ہے  کہ قومی ایکشن پلان پر بھرپور طریقے سے عمل کیا جائے گا۔



ڈی جی آئی ایس پی آر نے تو بین الاقوامی برادری اور بالخصوص بھارت کو یہ یقین دہانی بھی کروائی ہے کہ اگر پلوامہ حملے سے متعلق کسی پاکستانی  شخص یا تنظیم کے ملوث ہونے کے شواہد ملے تو اس شخص یا تنظیم کو سخت سے سخت سزا دی جائے گی۔

گزشتہ 72 گھنٹوں کے دوران کالعدم تنظیموں کے 450 سے زائد مدارس، ہسپتالوں،ڈسپنسریوں،  مساجد اور دفاتر کو  سرکاری تحویل میں لیا جا چکا ہے۔ گرفتار شدہ افراد کی تعداد اب 200 تک پہنچ چکی ہے۔

واضح رہے کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی جانب سے پاکستان کو دی جانے والی مئی یا ستمبر 2019ء تک کی  ڈیڈ لائن  پاکستان کو گرے سے بلیک لسٹ میں ڈال سکتی ہے۔

موجودہ علاقائی صورت حال سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ گرفتاریوں کی تعداد پانچ سو سے بڑھ جائے گی جب کہ 800 سے زائد مدارس کو حکومتی تحویل میں لے لیا جائے گا۔

سات مارچ کو منعقد ہونے والی کور کمانڈرز کانفرنس کے ذریعے بھارت اور عالمی برادری کو پیغام دیا گیا کہ طاقت استعمال کرنے کا اختیار صرف ریاست کے پاس ہے ، گزشتہ 48 گھنٹوں کے دوران سول اور دفاعی ہیئت مقتدرہ کو یہ اعتراف کرنا پڑا کہ پاکستان نے دبائو میں آ کر غیر ریاستی عناصر کے خلاف کارروائی نہیں کی ۔

سادہ الفاظ میں اب معاملہ یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو معیشت اور کرپشن پر توجہ مرکوز رکھنے کے ساتھ ساتھ کالعدم تنظیموں اور ان کی سرگرمیوں  پر بھی بھرپور نظر رکھنی  پڑے گی تا کہ اس طرح کی صورتحال دوبارہ پیدا نہ ہو جو دو جوہری طاقتوں کو روایتی جنگ کے دھانے پر لا کھڑا کرے۔



بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے لیے خطرات تو بہت سے ہیں لیکن اگر وہ انتخابات میں کامیاب ہو جاتے ہیں  تو وہ اسے پاکستان کو سزا دینے کا مینڈیٹ تصور کریں گے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستانی افواج کسی بھی قسم کے اچانک حملے کا جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں لیکن وہ طاقت کے استعمال  کو روک نہیں سکتیں۔

عمران خان کو اندرونی سطح پر چند مخصوص اقدامات کرنا ہوں گے جیسا کہ وہ  پہلے ہی سفارتی محاذ پر کچھ ضمانتیں دے چکے ہیں تاکہ کسی بھی قسم کی جارحیت کا سدباب کیا جا سکے۔ اگر وہ متعین کردہ اہداف کے حصول میں کامیاب رہے تو ان  کی پوزیشن مزید مضبوط ہو جائے گی۔