وفاقی وزیر برائے جہاز رانی علی زیدی، وفاقی وزیر برائے توانائی و قدرتی وسائل عمر ایوب اور مشیر پیٹرولیم ندیم بابر تیل کے ذخائر کی تلاش میں کراچی کے ساحل سے 230 کلومیٹر دور کیکڑا کے علاقے میں جا پہنچے۔ وزرا ہیلی کاپٹر پر سوار ہو کر اپنی منزل پر پہنچے۔
یہ تو معلوم نہیں کہ انہیں تیل کے کوئی ذخائر مل پائے ہیں یا نہیں؟ تاہم یہ یاد رہے کہ رواں برس مارچ کے مہینے میں حکومت نے تیل کے بڑے ذخائر کی دریافت کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کو تیل کے بڑے ذخائر کی دریافت کی صورت میں ایک قسم کا جیک پاٹ ملنے والا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا، کمپنیوں کی جانب سے ملنے والے اشارے اگر قابل عمل ہوئے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ ہمارے سمندر سے تیل کا ایک بڑا ذخیرہ دریافت ہو سکتا ہے اور اگر ایسا ہو گیا تو پاکستان ایک یکسر مختلف درجے میں ہوگا۔
تاہم تیل تلاش کرنے والی کمپنیوں ایگزون موبل اور ای این آئی نے دو ماہ گزر جانے کے باوجود بھی اس حوالے سے باضابطہ طور پر کوئی بیان جاری نہیں کیا جو جنوری سے تیل کی تلاش کے لیے کیکڑا-1علاقے میں 230 کلومیٹر تک انتہائی گہرائی میں کھدائی کر رہی ہیں۔
دونوں وفاقی وزرا اس مہم پر روانہ ہونے سے قبل سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر اپنی تصاویر شیئر کرنا نہیں بھولے جس پر ان کی تعریف ہوئی تو بہت سوں نے تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔
علی زیدی کی تصاویر پر تبصرہ کرتے ہوئے سینئر پاکستانی سفارت کار اور تجزیہ کار ظفر ہلالی نے سوال کیا، کیا یہ وہی کھدائی ہے جو (تیل کی تلاش میں) ایگزون کر رہی ہے، بس کھدائی ہی کھدائی جاری ہے لیکن کچھ نکل نہیں رہا، کیوں جا رہے ہیں وہاں؟ یا آپ کے پاس کوئی اچھی اطلاع ہے؟
ظفر ہلالی صاحب غالباً یہ بھول گئے یا ممکن ہے، وفاقی وزرا نے یہ سوچا ہو کہ سمندر کی سیاحت ہی کیوں نہ کر لی جائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے کیکڑا-1 کے مقام پر عبادت کا خصوصی اہتمام کیا ہو تاکہ جلد از جلد تیل برآمد ہو سکے اور ملک چلانے کے لیے بیرونی قرضوں پر انحصار نہ کرنا پڑے۔