بھارت، 20 لاکھ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے غائب ہونے کا انکشاف

بھارت کے سب سے بڑے شہر ممبئی کے ہائی کورٹ میں عوامی مفاد کے تحت دائر کی جانے والی ایک درخواست میں بھارتی الیکشن کمیشن کی تحویل میں موجود 20 لاکھ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے غائب ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔

بھارتی جریدے فرنٹ لائن نے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے مینوفیکچررز کا حوالہ دیتے ہوئے یہ دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے مقررہ تعداد میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں الیکشن کمیشن کو پہنچا دی تھیں۔

بھارت میں عام انتخابات 2019  کے دوران الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے غیرمحفوظ اور ناقابل اعتبار ہونے کے حوالے سے ایک بڑی تعداد میں شکایات سامنے آتی رہی ہیں اور ان کی وجہ سے بہت سارے مسائل بھی پیدا ہوئے ہیں۔



الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں میں خرابیوں سے متعلق اپوزیشن کی 21 جماعتوں نے مشترکہ طور پر شکایت درج کروائی تھی اور انہوں نے ان حلقوں میں ووٹر ویری فائی ایبل آڈٹ ٹرائل کروانے کا مطالبہ بھی کیا تھا تا کہ یہ تصدیق ہو سکے کہ دونوں طریقوں سے حاصل کیے جانے والے نتائج یکساں ہیں یا نہیں۔

جریدہ مزید لکھتا ہے کہ اس نوعیت کی شکایات کی ایک بڑی تعداد کے موصول ہونے کے باوجود بھارتی الیکشن کمیشن کوئی خاص ردعمل ظاہر نہیں کر رہا جس کے باعث سیاسی مبصرین، حزب اختلاف کے قائدین اور ریٹائرڈ سول سرونٹس اس ساری صورت حال کو مشکوک  قرار دے رہے ہیں۔

بھارتی الیکشن کمیشن کی جانب سے ان مطالبات پر مثبت ردعمل ظاہر نہ کرنے کے باعث بھی اسے شدید تنقید کا سامنا ہے اور ایک رپورٹ کے مطابق 66 ریٹائرڈ سرکاری ملازمین نے بھارتی صدر رام ناتھ کووند کو لکھے گئے ایک مشترکہ خط میں الیکشن کمیشن کی ہٹ دھرمی کے بارے میں شکایت کی ہے۔

انہوں نے یہ نقطہ بھی اٹھایا ہے کہ بھارتی الیکشن کمیشن کو اعتماد کے بحران کا سامنا ہے۔



گزشتہ 13 ماہ سے ممبئی ہائی کورٹ میں عوامی مفاد کے تحت الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں سے متعلق دائر کی گئی درخواست پر بھارتی الیکشن کمیشن کا رد عمل ان مسائل پر اس کی سوچ کی غمازی کرتا ہے۔

ممبئی میں معلومات تک رسائی کے حق کی سرگرم سماجی کارکن منورنجن رائے نے 27 مارچ 2018 کو بھارتی الیکشن کمیشن اور سٹیٹ الیکشن کمیشن کی جانب سے الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور ووٹر ویری فائی ایبل آڈٹ ٹرائل کی فراہمی، سٹوریج اور تعیناتی میں شامل مختلف مراحل سے متعلق درخواست دائر کی تھی۔

معلومات تک رسائی کے حق کی دستاویز میں فراہمی، سٹوریج اور ان کی تعیناتی کے تمام تین مراحل میں موجود تضادات پر روشنی ڈالی گئی ہے جب کہ 116.55 کروڑ بھارتی روپوں کی مالی بے قاعدگیوں کی نشاندہی بھی واضح ہوئی ہے۔