الیکٹرانک ووٹنگ مشین ہیک بھی ہو سکتی ہے، دھاندلی میں بھی استعمال ہو سکتی ہے: مشین کے ماہر نے بتا دیا

الیکٹرانک ووٹنگ مشین ہیک بھی ہو سکتی ہے، دھاندلی میں بھی استعمال ہو سکتی ہے: مشین کے ماہر نے بتا دیا
حکومتی امیدوار جس انداز میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا دفاع ٹی وی ٹاک شوز میں بیٹھ کر کر رہے ہیں، اس سے لگتا نہیں کہ ان کو خود بھی اندازہ ہے کہ یہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں کیوں استعمال کر رہے ہیں۔ یہ اپوزیشن سے اپنے نکات منوانے کی کوشش بھی نہیں کر رہے کیونکہ ان کا مسلسل استدلال ہے کہ اپوزیشن اپنی شکست کے لئے بہانے تیار رکھنا چاہتی ہے۔ اس دلیل کو یہ حقیقت مزید مضحکہ خیز بنا دیتی ہے کہ حکومت اس ایک سال میں قریب آدھ درجن ضمنی انتخابات ہار چکی ہے اور اس میں اس کی نوشہرہ کی وہ سیٹ بھی موجود ہے جس علاقے سے خٹک خاندان خود الیکشن لڑتا رہا ہے۔ ابھی حال ہی میں پنجاب میں کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات میں اس کی نشستیں ن لیگ کی جیتی نشستوں سے تقریباً آدھی رہی ہیں اور یہ پنجاب کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ حکومتی جماعت کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات ہار گئی ہو۔ یہاں تک کہ جب 2015 میں انہی کنٹونمنٹ بورڈ میں انتخابات ہوئے تھے، حکومتی جماعت اس وقت اپوزیشن میں تھی۔ اس نے تب بھی پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں اتنی بری کارکردگی نہیں دکھائی تھی، جتنی اس مرتبہ دکھائی ہے۔ تو جہاں تک مقبولیت کی بات ہے اور الیکشن نتائج سے خوف کا تعلق ہے، دعوے اپوزیشن کے ہی درست نظر آتے ہیں کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے بغیر شاید حکومت کا کام نہیں چلنے والا۔

اب دیکھتے ہیں کہ اپوزیشن کے دعوؤں میں دراصل کتنی حقیقت ہے یا یوں کہیے کہ ان کے خدشات کس حد تک جائز ہیں۔ اس مقصد کے لئے 14 مئی 2021 کو نیا دور کے لئے لکھے عاطف مجید کے مضمون سے مدد لینا ہوگی۔ عاطف مجید اس ٹیم کا حصہ ہیں جس نے یہ مشینیں بنائیں اور اپنے اس مضمون میں انہوں نے اس کے ساتھ جڑی مشکلات، خطرات، خدشات اور اخراجات کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ اس مضمون میں جو نکات وہ اٹھا رہے ہیں، یہ قارئین کے سامنے آسان زبان میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ہمیں نظر آتا ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین میں سب سے پہلی چیز جو سامنے آتی ہے وہ ووٹر کی شناخت ہے۔ یہ شناخت ووٹر کے انگوٹھے کے نشان سے ہوگی جو کہ نادرا کے ڈیٹابیس سے ہی ممکن ہوگی اور وہ ان مشینوں میں فیڈ ہوگا۔ اب نادرا کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان بھر میں زیادہ سے زیادہ 82 فیصد انگوٹھوں یا انگلیوں کے نشانات کی تصدیق کر سکتا ہے۔ یعنی بہترین حالات میں بھی 18 فیصد افراد کے انگوٹھے کے نشانات کی تصدیق ہی نہیں ہو سکے گی۔ اب اس کو ذرا فیصد کی بجائے اصل تعداد میں تبدیل کریں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ اوسطاً ہر حلقے میں 74 ہزار 750 ووٹ ایسے ہو سکتے ہیں جن کی نادرا شناخت کر ہی نہیں سکتا اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے ان کی تصدیق ممکن نہیں۔

2018 کے انتخابات میں ملک کے 32 فیصد، یعنی ہر تین میں سے ایک، حلقوں میں فتح اور شکست کا مارجن 10 ہزار ووٹس سے کم تھا۔ 43 فیصد میں یہ فرق 15 ہزار ووٹس سے کم تھا اور 50 فیصد حلقے ایسے تھے جہاں یہ فرق 20 ہزار سے کم تھا۔ یعنی ان حلقوں میں ایسے ووٹوں کی تعداد جن کی تصدیق نادرا نہیں کر سکتا جیت کے مارجن کے مقابلے میں 4 سے 8 گنا زیادہ ہو سکتی ہے۔ اب یاد رہے کہ نادرا قریب 20 سال سے یہ ڈیٹا اکٹھا کر رہا ہے اور اس وقت یہ صورتحال ہے۔

دوسری چیز جو سامنے لائی جا رہی ہے وہ یہ ہے کہ 3 لاکھ 50 ہزار ووٹنگ مشینز لا کر اتنی بڑی تعداد میں ووٹنگ کی جائے گی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمیں قریب 10 لاکھ مشینیں چاہئیں۔ 2018 انتخابات میں 85 ہزار پولنگ سٹیشنز پر 2 لاکھ 42 ہزار پولنگ بوتھ بنائے گئے تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمیں 85 ہزار ووٹر کی تصدیق کرنے والی مشینیں، 1 لاکھ 70 ہزار کنٹرول یونٹ اور 3 لاکھ 40 ہزار پرنٹر بیلٹ باکس چاہیے ہوں گے جبکہ 3 لاکھ 40 ہزار ہی بیلٹ یونٹ بھی درکار ہوں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمیں ایک سال تک روزانہ 3000 یونٹ بنانے والے کارخانے چاہئیں۔ اب ایک حل تو یہ ہو سکتا ہے کہ کسی دوسرے ملک کو یہ ٹھیکہ دے دیا جائے۔ لیکن ایسا حساس معاملہ کسی اور ملک کی مداخلت کے ذریعے پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچایا جانا چاہیے۔ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ یہ ملک یا ممالک اپنے مفادات کے لئے اس میں کوئی ایسا سافٹ ویئر نہیں انسٹال کر دیں گے جس کو بعد میں ہمارے ہی خلاف استعمال کر سکیں۔ ایسا حال ہی میں ہوا ہے کہ جب فلپائن کی فوجی انٹیلیجنس نے انہیں بتایا کہ چین ان کے اندرونی معاملات پر اثر انداز ہونے کے لئے ایسا کر سکتا ہے اور پھر فلپائن کو یہ ٹھیکہ تائیوان کو دینا پڑا۔ چین نے ان الزامات کی تردید کی لیکن اس سے دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات کو نقصان پہنچا۔



رہ گئیں ہماری لوکل یا نجی کمپنیاں تو حقیقت یہ ہے کہ فی الحال ہمارے ملک میں ایسی کوئی کمپنی نہیں کہ جس کی یہ استعداد ہو کہ وہ روزانہ 3000 یونٹ بنا سکے اور اگر کسی کی ہو بھی تو وہ سرکاری ادارہ ہی ہو سکتا ہے جس کے اوپر کسی کا اعتبار ویسے ہی نہیں ہے۔

اب ذرا انتخابات کے بجٹ کی بھی بات ہو جائے۔ 2018 کے انتخابات میں ہمارا کل بجٹ 21 ارب روپے تھا جب کہ اس مرتبہ صرف الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی قیمت آج کے ڈالر کے حساب سے قریب 80 ارب روپے بنتی ہے۔ اور یہ صرف مشینوں کی قیمت ہے، ان کی پیکیجنگ یا ان کو لانا یا لے جانا اس میں شامل نہیں۔ عوام اور سٹاف کو جو تربیت اس کے استعمال کے لئے چاہیے ہوگی، اس کے اخراجات ابھی اس میں شامل نہیں۔

اب آ جائیے ٹیکنیکل سپورٹ کی جانب۔ 130 ضلعوں میں بیک وقت ہونے والے الیکشن کے لئے آپ کو ہمہ وقت ٹیکنیکل سپورٹ کے لئے سٹاف درکار ہوگا۔ کسی بھی جگہ پر کوئی مشین خراب ہو سکتی ہے، خواہ اس کی کتنی ہی تندہی سے ٹیسٹنگ کی جا چکی ہو۔ کئی مرتبہ سٹاف سے بھی غلطیاں ہوں گی۔ ایسی صورت میں فوری طور پر فون پر یہ سپورٹ موجود ہونی چاہیے اور اگر فون پر مسئلہ حل نہیں ہوتا تو ٹیکنیکل سٹاف کو موقع پر پہنچنا ہوگا۔ موقع پر پہنچ کر بھی مسئلہ حل نہیں ہوتا تو اس مشین کو محفوظ کر کے نئی مشین انسٹال کرنا ہوگی اور بعد میں دونوں نتائج کو اکٹھا کرنا ہوگا۔ یہ سب کچھ آٹھ گھنٹے کے پولنگ وقت کے دوران ہی ہونا ہے۔ اور یہ حقیقی خدشات ہیں، جو دنیا میں ہر جگہ موجود رہتے ہیں۔ بھارت میں یہ نظام موجود ہے اور اس کے لئے مکمل انتظامات برسوں میں جا کر مکمل ہوئے ہیں۔

طریقہ کار یہ وضع کیا جا رہا ہے کہ جب آپ ایک مشین پر اپنی پسند کے امیدوار پر مہر لگا کر اس کی تصدیق کریں گے تو ایک کاغذ پرنٹ ہوگا جس سے آپ تصدیق کر سکیں گے کہ جو ووٹ آپ نے مشین پر کاسٹ کیا وہی کاغذ پر بھی سامنے نظر آ رہا ہے۔ اس حوالے سے یہ نظام بھارتی انتظام سے بھی بہتر ہے۔ لیکن کاغذات کے پرنٹ ہونے کے لئے پرنٹر کی ضرورت ہوگی اور یہ بیٹری پر ممکن نہیں۔ ان کو چلانے کے لئے بجلی کی ضرورت ہوگی اور پاکستان میں بجلی کی صورتحال سے کون واقف نہیں؟

پھر ان مشینوں کو پانچ سال میں محض ایک بار استعمال کیا جانا ہے۔ ان کی سٹوریج کے لئے علیحدہ سے انتظامات کرنا ہوتے ہیں تاکہ یہ مشینیں خراب نہ ہوں۔ آئر لینڈ نے اسی وجہ سے اس نظام کو تلف کیا کیونکہ سٹوریج کے اخراجات حد سے زیادہ تھے۔ واضح رہے کہ اس میں محض سٹوریج کا مسئلہ نہیں ہوتا۔ پانچ سال ان مشینوں نے ایک جگہ رکھے رہنا ہے تو صرف یہی یقینی بنانا ضروری نہیں کہ یہ خراب نہ ہوں بلکہ یہ یقینی بنانا بھی ضروری ہے کہ اس دوران ان کے ساتھ کوئی چھیڑخانی نہ ہو۔ اس کے لئے ان کو بلکہ مزید ٹیسٹس سے گزارا جائے گا یہ یقینی بنانے کے لئے کہ ان کے سافٹ ویئر کے ساتھ کوئی چھیڑ خانی کر کے اگلے انتخابات کو مینیج کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ ہالینڈ بھی ان اولین ممالک میں سے تھا جس نے یہ ٹیکنالوجی استعمال کرنا شروع کی تھی اور 2007 میں اسے تلف کر دیا تھا۔ اس کی وجہ بھی سکیورٹی خدشات ہی تھے۔

اور آخر میں، کیا اس مشین سے ووٹر کی شناخت کی جا سکے گی؟ اس مقصد کے لئے ووٹ ڈالنے کے عمل کو ووٹر کی شناخت کے عمل سے جدا کرنا ہوتا ہے۔ لیکن یہ اتنا مشکل نہیں ہے۔ ہر ووٹ پر تاریخ اور دن موجود ہے۔ کس وقت کس ووٹر کی شناخت کی گئی اور کس وقت کس کو ووٹ ڈالا گیا، دونوں کو یکجا کر کے دیکھا جا سکتا ہے کہ کون سا ووٹر کس امیدوار کے حق میں ووٹ ڈال رہا ہے۔

سوال لہٰذا یہاں یہ ہے کہ یہ نظام جو اس امید پر لایا جا رہا ہے کہ یہ ہمارے انتخابات کو شفاف بنانے میں مدد کرے گا، اگر ان پر مزید سوالات اٹھانے کا مؤجب بن جائے تو پھر اس کو لانے کا فائدہ ہوگا یا نقصان؟