لیجئے حسب توقع عمران خان اور جہانگیر ترین کی خفیہ ملاقات کی خبر اور ڈیل سامنے آ ہی گئی۔ اس ملاقات کے فوراً بعد شوگر سکینڈل کی تحقیقات کرنے والے ڈاکٹر رضوان کو بڑی صفائی سے سائیڈ لائن کر دیا گیا۔ اپنا پہلے دن سے یہ مؤقف تھا کہ یہ انکوائری صرف عوام پر اپنے بیانیے کی دھاک بٹھانے کے سوا کچھ نہیں بلکہ آگے چل کر عمران خان کی سیاسی سودے بازی کا ایک بہترین ذریعہ ہوگی۔
ماضی میں جہانگیر ترین کے پیسے کی بہت اہمیت ہوتی تھی لیکن ان کی ذاتی سیاسی اہمیت اب کچھ بھی نہیں۔ ایک تو وہ نااہل ہو چکے ہیں اور پھر ان کے پاس کوئی محفوظ سیاسی حلقہ کبھی بھی موجود نہیں تھا۔ ریکارڈ گواہ ہے وہ اپنے علاقے میں اس قابل نہیں ہیں کہ کسی مقبول سیاسی پارٹی کے ٹکٹ کے بغیر پینتیس، چالیس ہزار سے زائد ووٹ لے سکیں۔ معاملہ تو صرف اتنا تھا کہ جہانگیر ترین کو چینی کی ایکسپورٹ اور اس کی قیمت بڑھانے پر کی جانے والی دہاڑی اور اگلی پچھلی بنائی گئی دولت کو ہضم کرنے کا وعدہ پورا ہو جائے تو خود ان کے گرد اکٹھے کیے گئے منتخب نمائندوں کو تب پتہ چلے گا جب ان کے سر کی قیمت پر سودا طے ہو چکا ہوگا اور بالکل ایسا ہی ہوا۔
اس دوران میڈیا کے دوستوں نے جہانگیر ترین اور اس گروہ کو بوتل سے نکلا جن سمجھتے ہوئے اس سے لاتعداد اندازے خبر کی صورت وابستہ کر کے پروگرام کر ڈالے حالانکہ اس گروہ میں مخدوم خسرو بختیار کے چاہنے والے زیادہ تعداد میں موجود ہیں یا مستقبل کا ایک سلطانی گواہ جو بعد میں غائب ہو گیا۔ ظاہر ہے خسرو بختیار کی اہمیت جہانگیر ترین سے کہیں زیادہ ہے اس لئے ان کی قربانی کسی بھی قیمت پر قبول نہیں اور یہی اصل پریشانی کی بات تھی۔ اگر یہ کام شروع ہو جاتا تو نصراللہ دریشک تو شاید کوئی جھوٹا سچا حساب دے ہی پاتے لیکن مخدوم خسرو بختیار تو یہ جواب تک نہیں دے سکتے کہ پہلی شوگر مل کے لئے ان کے پاس رقم کہاں سے آئی یا یہ کہ وہ "ٹو سٹار" جیسی لاڈلی شوگر مل کی دہاڑی کا حساب دیتے اور وقت بدلنے پر کئی پردہ نشینوں کے نام بھی طشت از بام ہو جانے کا خطرہ بھی موجود رہتا۔
اختر عبدالرحمٰن کے بیٹوں کے پاس تو کوئی محفوظ انتخابی حلقہ نہیں لیکن خسرو بختیار تو مستقبل کے پکے پکائے وزیر اعظم تھے لیکن برا ہوا عمر چیمہ کا جن کی خسرو بختیار کے اچانک بہت امیر ہو جانے متعلق سٹوری ہر وقت ننگی تلوار کی طرح ان کا پیچھا کرتی ہے۔ اس گروہ کو سامنے لانے کے دو مقاصد تھے۔ ایک تو یہ کہ شوگر سکینڈل میں ملوث تمام کرداروں کو قانون کی گرفت سے بچایا جائے اور دوسرا یہ کہ لگے ہاتھوں اس دباؤ کے ذریعے عثمان بزدار سے بھی جان چھڑا لی جائے۔ اس گروہ کا اتنی تعداد میں سامنے آ جانا یقیناً ایک بڑی خبر تھی اور پھر اس کی شدید میڈیا کوریج نے بظاہر حکومتی ایوانوں میں بھونچال سا بھی پیدا کر دیا۔ اس سارے دباؤ کے باوجود عمران خان نے اس سارے گھیراؤ کا جس طرح جواب دیا اس کی داد نہ دینا ناانصافی ہوگی۔
پہلے تو انہوں نے شوگر سکینڈل کے غبارے میں خوب ہوا بھری۔ جہاں موقع بھی نہیں تھا وہاں بھی اس سکینڈل کے کرداروں کو جی بھر کے اس طرح لتاڑا کہ ان کے چاہنے والے پھر سے قائل ہو گئے کہ عمران خان کرپشن کے معاملے میں اپنوں کو بھی معاف نہیں کرتا۔ اس بیانیے کے ذریعے عمران خان عوام کو یہ بات بھلانے میں بھی کامیاب رہے کہ اس شوگر سکینڈل کے مرکزی کرداروں میں ان کا وزیر اعلیٰ پنجاب اور وہ خود شامل ہیں کیونکہ چینی ایکسپورٹ کی اجازت بہرحال حکومت نے ہی دی تھی۔ خیر اعصاب کی اس جنگ میں عمران خان نے قومی اسمبلی میں یوسف رضا گیلانی کے ہاتھوں حفیظ شیخ کی شکست کو بھی برداشت کیا لیکن پھر جہانگیر ترین اور ان کے چاہنے والوں کو ایسے مجبور کیا کہ انہوں نے قومی اسمبلی سے عمران خان کو اعتماد کا ووٹ بھی دلوایا اور یوسف رضا گیلانی کو چیئرمین سینیٹ بننے سے بھی روک کر دکھایا چاہے اس مہم جوئی کے دوران ایوان میں لگے خفیہ کیمرے پکڑے جانے جیسی خجالت کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ کہاں تو یہ کروفر تھا کہ اب کی بار تو عثمان بزدار کو فارغ کرنا ہی پڑے گا اور کہاں یہ عالم کہ جہانگیر ترین اور خاص طور پر مخدوم خسرو بختیار کو بچانے کے لئے پیپلز پارٹی کو بھی پی ڈی ایم سے علیحدہ کروانے جیسا لاڈ اٹھانا پڑا۔ اس سب کارگزاری کے بدلے میں حاصل یہ ہوا کہ شوگر انکوائری کا سربراہ بدل دیا گیا لیکن جہانگیر ترین پر مقدمات موجود ہیں اور باقی کرداروں کے متعلق سفارشات تفتیشی رپورٹ میں لکھ دی گئی ہیں تاکہ سند رہے۔
عمران خان کو کرنا صرف یہ پڑتا ہے کہ خود یا اپنے پیروکاروں کے ذریعے اسمبلی توڑنے کی دھمکی دے کر سب کے ہاتھ پاؤں شل کر دیتا ہے۔ اسے پتہ ہے یہاں اخلاقیات کی کوئی حیثیت نہیں اسی لئے تو وہ بطور کامرس منسٹر بھارت سے تجارت کی اجازت دیتا ہے اور جب دو دن میں یہ دیکھتا ہے کہ مجھے بھی نواز شریف کی طرح قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے تو وہ بطور وزیر اعظم اس سمری کو مسترد کر دیتا ہے۔ کوئی جو بھی کہے لیکن اس وقت نواز شریف ہی اس کی حکومت قائم رہنے کی ضمانت ہے ورنہ یہ اعصابی جنگ عمران خان کب کی قومی اسمبلی یا پنجاب میں ہار چکے ہوتے۔
بعض لوگ خاص طور پر صحافی حضرات عمران خان کی اسمبلی توڑ دینے کی دھمکی کو دو وجوہات کی وجہ سے مذاق میں اڑا دیتے ہیں۔ پہلی وجہ یہ کہ عمران خان کی کوئی حیثیت نہیں کہ وہ اسمبلی توڑ سکے اور دوسری طاقتور وجہ یہ ہے کہ اسمبلیاں توڑ کر ان کے ہاتھ کیا آئے گا۔ دراصل یہ پیغام بڑا واضح ہے کہ کوئی اکیلا نہیں جائے گا اور یہ کہ جیسا بھی وزیر اعظم ہو اس کے پاس اسمبلی توڑنے کے علاوہ بھی بہت سارے اختیارات ہوتے ہیں اور ان کے استعمال سے پھر اسمبلی توڑنے جیسی فضول دھمکی پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔
اب جب کہ بھارت سے نئی طرز کے تعلقات کی داغ بیل ڈالی جا رہی ہے تو عمران خان کی سودے بازی کی طاقت مزید بڑھ گئی ہے۔ جو سیاستدان بھارت سے تجارت پر دو دن میں پینترا بدل سکتا ہے اور بھری محفل میں یہاں تک کہہ سکتا ہے کہ شکر ہے ہم نے پہلے ہی آکسیجن ذخیرہ کر لی نہیں تو ہمارا انڈیا جیسا حشر ہوتا تو کیا اس سے بعید ہے کہ وہ کل بھارت سے تعلقات کی بحالی سے لاتعلقی کا اعلان کر دے۔ ابھی شیریں مزاری نے تازہ بیان جاری کیا ہے کہ ہمارے اوپر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لئے بہت دباؤ ہے، شاید اسی لئے اس وقت عمران خان کو سعودی عرب کا دورہ درپیش ہے تاکہ انہیں باور کرایا جا سکے کہ سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے کتنے مضبوط تعلقات ہیں اور سعودی عرب کے ساتھ کیے گئے وعدوں کو پورا کرنا کتنا ضروری ہے اور ان وعدوں میں سرفہرست بھارت سے اچھے تعلقات کے آغاز کا وعدہ ہے۔
شہباز شریف بے شک اچھا بچہ بن کر دکھائیں لیکن دراصل ان کے ذمے صرف یہ کام ہے کہ اپنے بھائی کو پاک بھارت تعلقات کی بہتری میں تعاون پر آمادہ کریں اور کوئی کشمیر کارڈ کھیلنے سے باز رہیں۔ اس تعاون پر ابھی شہباز شریف کو ضمانت کی طرح جھٹ سے اقتدار تو نہیں ملے گا۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ ٹی ایل پی کے ساتھ ساتھ وسطی پنجاب میں پنجابی ازم کو ابھارنے والی کوئی جذباتی تحریک بمعہ کسان تحریک اور پوٹھوہار و ہزارہ صوبہ تحریک آنے میں تاخیر ہو جائے۔
شہبازشریف کو سمجھنا چاہیے کہ کسی جانے والے کو اتنا اہم دورہ سعودی عرب نہیں کروایا جاتا۔ بہرحال بھٹو، بے نظیر، نواز شریف اور دیگر تمام وزرائے اعظم کے کبھی دماغ میں بھی نہیں آیا ہوگا کہ قومی معاملات اور بین الاقوامی تعلقات بھی سیاسی بلیک میلنگ اور طاقت حاصل کرنے کے ذرائع کے طور پر استعمال میں لائے جا سکتے ہیں۔ یقیناً یہ صورتحال مایوس کن ہے اور ظاہر ہے ایسی سازشی صورتحال سے منسلک کسی کردار یا نظام کا انجام بخیر نہیں ہوتا لیکن فی الوقت عمران خان نے اپنی چومکھی سیاست سے اپوزیشن کی بجائے اپنے چاہنے والوں کو زیادہ خوف زدہ کر رکھا ہے۔ جہانگیر ترین تو خسرو بختیار کے چاہنے والوں کی امداد سے بچ نکلے لیکن باقی لوگ سوچ سمجھ لیں کہ ان کا مستقبل کس قدر محفوظ ہے۔