ملک میں جب بھی سلطنت بحریہ ٹاؤن کا ذکر آتا ہے تو میڈیا سمیت سیاسی پارٹیاں بھی خاموشی اختیار کرلیتی ہے اور ان کے خلاف بولنا توہین سمجھا جاتا ہے۔ یہ قیاس آرائیاں مارکیٹ میں گردش کرتی رہتی ہیں کہ اگر ایک طرف ملک ریاض کے پاس ریٹائرڈ فوجی افسران، ججز ، وکیلوں اور سیاست دانوں کی ایک کھیپ ہے تو دوسری جانب میڈیا مالکان ہر وقت اُن کے ہتھیلی پر ہوتے ہیں وہ جب چاہیں خبر چلا اور روکواسکتے ہیں۔ میڈیا مالکان ملک ریاض کے خلاف خبر انکی اور اُن کی سلطنت کی توہین سمجھتے ہیں اس لئے ملک ریاض کے جتنے ٹی وی انٹرویوز ہوئے اُن میں زیادہ تر پلانٹڈ اور اسکرپٹ کے مطابق تھے اور ایک ویڈیو تو بہت زیادہ مشہور ہوئی۔
حال ہی میں کراچی کے علاقے گڈاپ ٹاؤن میں بحریہ ٹاؤن کراچی (بی ٹی کے) کی جانب سے اپنے نئے ہاؤسنگ منصوبے کے لیے زرعی اراضی پر تجاوزات کی کوشش کے خلاف احتجاج کے دوران نجی گارڈز اور پولیس اہلکاروں کی مبینہ فائرنگ سے ایک شہری شدید زخمی ہوگیا جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اور تب جاکر سندھ حکومت نے بحریہ ٹاؤن کے سیکیورٹی افسر پر مقدمہ درج کیا۔
مگر سندھ حکومت سمیت دیگر سیاسی پارٹیاں اور میڈیا اس پر خاموش کیوں ہے نیا دور میڈیا نے اس سوال کا کھوج لگانے کے لئے کئی لوگوں سے بات کی۔
سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سرکردہ کارکن عبدالحق ہالیپوٹو نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ واقعی اس میں شک نہیں کہ ملک ریاض کی سلطنت کے خلاف بات کرنا ایک مشکل کام ہے اور سیاسی جماعتیں سمیت میڈیا اس پر بات کرنے سے کتراتا ہے۔ لیکن ملک ریاض کے کراچی کیس کو اگر دیکھا جائے تو انھوں نے سپریم کورٹ آف پاکستان سے حلال ہونے کا سندیسہ لیا تو اب وہ کسی نیچے والے معاہدے پر رکنے والے نہیں۔ انھوں نے کہا کہ جب سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک شخص کو زمینوں کی غیر قانونی قبضے پر پیسے لیکر اُس کو قانونی بنادیا تو پھر الزامات سیاسی پارٹیوں پر کیوں ڈالے جاتے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ سیاسی پارٹیوں پر الزام لگانا آسان ہے لیکن اگر اپ ملک ریاض کے اطراف میں دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے اندر ایک ریاست ہے جن کو توڑنا آسان نہیں۔ عبدالحق نے مزید کہا کہ گڈاپ ٹاؤن کے کیس میں بھی بحریہ ٹاؤن نے قانونی کاروائی مکمل کی ہے اس لئے وہ دلیری سے آگے بڑھ رہے ہیں۔
کراچی کی تاریخ پر متعدد کتابوں کے مصنف اور انڈیجینس رائٹس الائنس کے سرگرم رکن گل حسن کلمتی نے بی بی سی کے ساتھ ایک خصوصی انٹریو میں کہا کہ بحریہ ٹاؤن نے اب کاٹھوڑ کی طرف بڑھنا شرو ع کر دیا ہے جہاں وہ فارم ہاؤس بنانا چاہتے ہیں۔
'ایک طرف سے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی سٹی آگے بڑھ رہا ہے تو دوسری طرف بحریہ ٹاؤن بھی ہے جس کی وجہ سے مقامی آبادی ایک نرغے میں آگئی ہے۔گل حسن کلمتی کے مطابق یہ زمین سرکاری ہے اور سرکار نے لیز ختم کر کے زمین ملیر ڈیویلپمینٹ اتھارٹی کو دے دی جنھوں نے کچھ برس قبل یہ زمین بحریہ ٹاؤن کے حوالے کردی۔
گل حسن کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے بحریہ ہاؤسنگ کے کیس میں واضح کیا تھا کہ وہ 16800 ایکڑ سے آگے نہیں بڑھیں گے تاہم سندھ حکومت نے یہ واضح نہیں کیا کہ یہ زمین کونسی ہے۔
گل حسن کلمتی کا دعویٰ ہے کہ اس وقت کاٹھوڑ (کراچی) میں 45 ہزار ایکڑ پر بحریہ ٹاؤن کا پھیلاؤ اور ہاؤسنگ جاری ہے۔
'انھوں نے مزید کہا کہ جام شورو کے چار دیہات میں بھی بحریہ ٹاؤن نے زمین حاصل کرلی ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ حکومت عدالت سے الاٹ کردہ زمین کی ڈیمارکیشن کرے تاکہ پتہ چلے کہ وہ زمین کونسی ہے۔ اس وقت تو وہ عدالت کے حکم کا فائدہ لے کر ہر کسی کو کہہ رہے ہیں کہ عدالت کے حکم پر انھیں زمین دی گئی۔ عدالت نے تو صرف 16800 ایکڑ کو قانونی قرار دیا جبکہ یہ 45 ہزارایکڑ تک قبضے میں لے چکے ہیں۔
کراچی میں ایک بڑے میڈیا گروپ سے گزشتہ 15 سال سے منسلک سینئیر صحافی نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ملک ریاض اب پہلے سے زیادہ طاقتور بن کر سامنے آرہا ہے اور ان کی بنیادی وجہ ٹی وی مالکان پر بڑھتا دباؤ ہے۔ انھوں نے کہا کہ ملک ریاض کو کراچی کیس میں ایک قانونی کیس کا سہارا حاصل ہے کہ انھوں نے سپریم کورٹ آف پاکستان کو اربوں روپے جمع کروائے ہیں اس لئے سندھ حکومت بھی کترا رہی ہے کہ ملک ریاض کے خلاف کوئی سخت ایکشن نہ لیا جائے جن سے ان کے لئے مسائل پیدا ہوں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ویڈیوز سوشل میڈیا پر سامنے آرہی تھی مگر وہی کرنا تھا میڈیا مالکان نے شروع سے بتایا ہے کہ سلطنت بحریہ پر بات کرنا ممنوع ہے۔
کراچی میں عرب نیوز سے وابستہ سینئیر صحافی نعمت خان سمجھتے ہیں کہ ریاستی دباؤ، حکومتی پالیسی اور دیگر پریشر گروپس سے اتنی خبریں نہیں مرتی جتنی خبریں مالی فوائد کی وجہ سے مار دی جاتی ہے اور ملک ریاض اور ان کے بحریہ ٹاؤن کا کیس ہمارے سامنے ہے۔ صحافی نعمت خان کے مطابق پاکستان میں عدلیہ، سول اور عسکری اسٹیبلیشمنٹ، میڈیا اور سیاسی پارٹیوں پر بحریہ ٹاؤن کا اتنا اثر رسوخ ہے کہ کوئی ان کی دہشت اور غیر قانونی کاروائیوں پر بات تک نہیں کرتا۔