تعمیراتی میٹریل بنانے والی کمپنیوں اور دیگر انڈسٹریز کے مال کی بہت بڑی مقدار میں کھپت بحریہ ٹاؤن میں ہوتی ہے۔ یہ انڈسٹریز ملک ریاض کی وجہ سے چل رہی ہیں جبکہ ملک ریاض ہی کی وجہ سے ان انڈسٹریز پر عروج آیا تھا۔ اگر بحریہ ٹاؤن بند ہو گیا تو پاکستان کی 60 بڑی انڈسٹریز کو نقصان پہنچے گا۔ یہ کہنا ہے سینیئر صحافی جاوید چوہدری کا۔
یوٹیوب پر حالیہ وی-لاگ میں جاوید چوہدری نے بتایا کہ بحریہ ٹاؤن سے متعلقہ خبریں اس وقت ملک بھر میں موضوع گفتگو بنی ہوئی ہیں۔ سوشل میڈیا پر ہر جگہ یہی چہ مگوئیاں چل رہی ہیں کہ بحریہ ٹاؤن دیوالیہ ہونے والا ہے۔ اس کے ڈیفالٹ ہونے کی کچھ توجیہات بھی پیش کی جا رہی ہیں کہ ملک ریاض بری طرح پھنس گئے ہیں۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے بھی پیسے دینے ہیں اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے بھی۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ان کے نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات خراب ہو گئے ہیں اور آصف علی زرداری کے ساتھ تعلقات میں بھی 'گیپ' آ گیا ہے۔ یہ افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں کہ ملک ریاض اور چوہدری صاحبان ایک دوسرے کے خلاف ہو گئے ہیں۔ اور یہ بھی کہ ان کی صحت خراب ہے اور وہ جلد معاملات کو سمیٹنا چاہتے ہیں۔
صحافی نے کہا کہ میرا ملک ریاض سے بہت پرانا تعلق ہے۔ میری ان سے ملاقات 1996 میں ہوئی تھی جب نہ وہ 'ملک ریاض' بنے تھے اور نہ ہی مجھے کوئی جانتا تھا۔ میں ایک عام سا صحافی تھا اور ملک ریاض کا پراپرٹی کا کام ابتدائی مرحلے میں تھا۔ بعدازاں انہوں نے بحریہ ٹاؤن لانچ کیا اور پاکستان میں ریئل اسٹیٹ انڈسٹری کا باقاعدہ آغاز کیا۔ اس سے پہلے پاکستان کی سبھی ہاؤسنگ سکیمیں ایل ڈی اے، کے ڈی اے یا پھر سی ڈی اے تعمیر کرواتا تھا۔ بڑے بڑے شہروں میں ٹاؤن پلاننگ حکومت کا کام تھا۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ کسی بھی شہر میں کوئی بھی سیکٹر ڈیویلپ نہیں ہو رہا تھا اور لوگ سکولوں اور ہسپتالوں سمیت سہولتوں کے فقدان کے باعث بہت نالاں تھے۔ بے ہنگم سی آبادیاں تھیں۔ ملک ریاض نے باقاعدہ ہاؤسنگ سیکٹر ڈیویلپ کیا اور ثابت کیا کہ یہ کام حکومت کا نہیں بلکہ نجی ٹھیکیداروں کا ہے اور اگر وہی یہ کام کریں گے تو پاکستان ترقی کر سکے گا۔
صحافی نے کہا کہ اگر بحریہ ٹاؤن بند ہو گیا تو پاکستان کی 60 بڑی انڈسٹریز کو نقصان پہنچے گا۔ سریہ، اینٹیں، سیمنٹ، بجری، فِنش گڈز سمیت دیگر انڈسٹریز کے مال کی بہت بڑی تعداد میں کھپت بحریہ ٹاؤن میں ہوتی ہے۔ یہ انڈسٹریز ملک ریاض کی وجہ سے چل رہی ہیں جبکہ ان انڈسٹریز پر عروج بھی ملک ریاض کی وجہ سے ہی آیا۔
صحافی نے کہا کہ میں نے 1996 میں ایک شخص کی مدد کی نیت سے ایک کالم لکھا جس میں بتایا کہ شخص پر ایک لاکھ روپے کا قرض ہے۔ ادائیگی نہیں کر سکتا اور خودکشی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اگر کوئی صاحب استطاعت شخص اس کا قرض ادا کر دے تو اس کی جان بچ سکتی ہے۔ 1 لاکھ تب بہت بڑی رقم ہوتی تھی۔ تب میری تنخواہ 10 ہزار روپے تھی۔ مجھے ایک شخص نے کال کی اور کہا کہ میرا نام ملک ریاض ہے اور پراپرٹی کا کام کرتا ہوں۔ میں اس شخص کا قرض ادا کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا کہ میں اس شخص کو آپ کے پاس لے آتا ہوں۔ آپ اس سے تحریر لکھوا کر اسے رقم دے دیجیے گا۔ میں اس کو ملک صاحب کے پاس لے گیا۔ انہوں نے رقم تیار کر رکھی تھی۔ بغیر کسی کاغذی کارروائی کے اس کو رقم دی اور جا کر قرض ادا کرنے کو کہا۔ وہ شخص چلا گیا۔ میں حیران ہوا اور ان سے پوچھا کہ نہ آپ نے اس شخص کا شناختی کارڈ چیک کیا، نہ ہی کوئی تحریر لکھوائی۔ تصدیق تو ضروری ہوتی ہے کہ وہ شخص سچا ہے یا نہیں۔ لیکن ان کے جواب کی وجہ سے میں ان کا معترف ہو گیا اور میرا ان سے پوری زندگی کا تعلق بن گیا۔
صحافی نے بتایا کہ ملک ریاض نے کہا کہ جب اللہ تعالیٰ مجھ سے کچھ پوچھے بغیر کوئی کانٹریکٹ لکھوائے بغیر مجھے اتنا دے رہا ہے تو کیا یہ مجھے زیب دیتا ہے کہ میں اللہ کے نام پر کسی کی مدد کروں اور اس کے کوائف چیک کرتا رہوں۔ اسی طرح انہوں نے ایک اور شخص کی گردے ٹرانسپلانٹ کروانے کے لیے مدد کی۔ صحافی نے مزید کہا کہ چونکہ ملک ریاض کا دل بہت بڑا ہے اور وہ اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں تو انہوں نے دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان کا شمار پاکستان کی امیر ترین شخصیات میں ہونے لگا اور ان کی چھوٹی سی ہاؤسنگ سوسائٹی بہت بڑی بن گئی۔
صحافی کا کہنا تھا کہ ملک ریاض کو تنگ کر کر کے ہم نے اتنا نقصان کر لیا ہے کہ پاکستان کبھی ریکور نہیں کر سکے گا۔ اگر اس شخص کو پاکستان کی ہاؤسنگ کو ٹھیک کرنے کا ٹاسک دیا جاتا تو وہ ملک کی ہاؤسنگ کا سٹرکچر بدل کر رکھ دیتا۔ جو انڈرپاس حکومت 10 سال میں بھی نہ بنا سکی وہ اس نے 5، 6 ماہ میں تعمیر کروا کے ہینڈ اوور کر دیے۔
صحافی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں 2 مسائل ہیں۔ ایک تو یہ کہ جو بھی شخص کام کرنا چاہتا ہے ہم اس کو کام ہی نہیں کرنے دیتے۔ ہم اس کے خلاف ہو جاتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس شخص کا نقصان ہو یا نہ ہو، ملک کا نقصان ضرور ہو جاتا ہے۔ دوسرا یہ کہ ہم اس ملک میں کسی کو ترقی کرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے اور اس وجہ سے ہم نے پاکستان کے ہاؤسنگ سیکٹر کو تباہ کر دیا۔
صحافی نے بتایا کہ 1996 سے ملک ریاض کسی نہ کسی مشکل میں مبتلا رہے ہیں۔ ہر حکومت نے ان کے خلاف کیس بنائے اور کارروائی کی۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ ملک ریاض موجودہ صورت حال سے بھی نکل جائیں گے۔ میں نے ملک ریاض سے بذات خود رابطہ کیا اور سوال کیا کہ یہ جو افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ بحریہ ٹاؤن ڈیفالٹ کر رہا ہے، اس میں کتنی سچائی ہے؟ اس کے جواب میں ملک ریاض نے ایک آڈیو میسج بھیجا جس میں انہوں نے کہا کہ یہ سب جھوٹ ہے۔ 1996 سے مختلف ادارے اور لوگ میرے پیچھے پڑے ہوئے ہیں لیکن اللہ بہت بڑا ہے۔ اللہ ہمیشہ مجھے آگے لے کر ہی گیا ہے۔ بحریہ ٹاؤن کی اللہ ہی حفاظت کرے گا۔
ایک اور میسج میں انہوں نے کہا کہ بحریہ ٹاؤن محفوظ ہے اور دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے۔ جتنا اس پر دباو ڈالا جاتا ہے یہ مزید آگے جاتا ہے۔ مخالفین کو اللہ تعالیٰ شکست دے گا۔ بحریہ ٹاؤن کو کامیاب و کامران کرے گا۔ میرا خون اور جان بھی بحریہ ٹاؤن کے لیے ہے اور بحریہ ٹاؤن پاکستان کو تبدیل کر دے گا۔