افسوس صد افسوس کہ ہماری ہئیت مقتدرہ نے تاریخ سے سبق سیکھنا گوارہ نہیں کیا۔ مسلسل اسی راہ پر گامزن ہے جس پر چلتے ہوئے ماضی میں نقصان برداشت کیے۔ سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری اور ان کے ساتھ توہین آمیز رویہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ہئیت مقتدرہ اپنی روش تبدیل کرنے کو تیار نہیں اور ہمیشہ کی طرح سیاست کار ان کی کٹھ پتلیاں بننے کو تیار ہیں۔ بلکہ اس بار تو سیاست کاروں کے ساتھ ساتھ صحافتی نرتکیاں بھی ان کو پنجاب کی نگران انتظامیہ کی صورت میں دستیاب ہیں۔
جنرل ایوب خان کے وقت سے جو سلسلہ شروع ہوا اب اس کا حال یہ ہو چکا ہے کہ لاہور اور پشاور کے کماندار اپنے گھروں پر عوامی غضب کا سامنا کرنے سے پہلے ہی گھر چھوڑ جاتے ہیں اور ایک ہجوم ہے جو راولپنڈی میں سپہ سالار کی جائے پناہ کی طرف چل پڑتا ہے۔ بخدا ہم اس منظر سے بھی سبق سیکھنے کو تیار نہیں بلکہ اہنکار اور تکبر میں مبتلا یگانہ کے اس شعر کی تصویر بنے ہوئے ہیں؛
؎ خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا
یہ ایک قابل شرم صورت حال ہے۔ محترمہ فاطمہ جناح، شیخ مجیب الرحمان، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور اب عمران خان جیسے ملک گیر شہرت و مقبولیت کے حامل سیاست دانوں سے ہئیت مقتدرہ کا خوف اور بُغض اب نوشتہ دیوار بن چکا ہے۔ صاف نظر آتا ہے کہ یہ کسی کو بھی اپنے سامنے دیکھنے کو تیار نہیں ہیں۔ کل جو کچھ وطن عزیز میں ہوا اور عوام میں بے پناہ مقبولیت کے حامل عمران خان کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا، اس کے بعد پنجاب میں جو منظر سامنے آئے اس کے بعد باچا خان کے بیٹے ولی خان کی یہ بات سچ ثابت ہوتی نظر آتی ہے کہ جب تک پنجاب نہیں جاگے گا تب تک ہئیت مقتدرہ کو نکیل نہیں ڈالی جا سکتی مگر شاید ہنوز دلی دور است والی بات ہے۔
سرکش نوکر شاہی سانحہ مشرقی پاکستان سے کچھ نہ سیکھ سکی۔ وہ کبھی نہیں سیکھ سکتی۔ سب کو پتہ ہے کہ عمران خان کو ایک ڈرٹی ہیری کا سرعام اصل نام لینے کی سزا سنائی گئی ہے۔ اس سے اندازہ لگا لیں کہ ایک عسکری نوکر شاہی کے اہلکار کی عزت پاکستان کے سب سے مقبول ترین سیاست دان سے زیادہ ہے مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ مکس اچار حکمران اتحاد ہئیت مقتدرہ کے اشاروں پر مداری کے بندر کی طرح ناچ رہا ہے کیونکہ ان کی بدعنوانی کی داستان زبان زد عام ہے۔ اپنے مقدمات سے جان چھڑانے کے لئے ان کو بندر تو کیا کچھ اور بھی بننا پڑے تو یہ تیار ہیں۔
امید کی آخری کرن منضف اعلیٰ کی عدالت عظمیٰ سے ہے۔ کل تو عدالت عالیہ نے بھی ہاتھ کھڑے کر کے یہ کہہ دیا کہ گرفتاری قانونی ہے مگر توہین عدالت تو ہوئی ہے۔ خیر ان قانونی موشگافیوں کو قانون دان ہی بہتر سمجھتے ہیں۔ ہم تو صرف عوام کی بات کرتے ہیں جو پچھلے ایک سال سے مہنگائی کی چکی میں پس چکے ہیں۔ انہوں نے ابھی اپنی برداشت کی ایک حد ہی عبور کی ہے۔
ابھی تک اطلاعات کے مطابق خیبر پختونخوا سے ایک جلوس دار حکومت کی طرف روانہ ہو چکا ہے۔ میں نہیں جانتا اس میں شامل لوگوں کی تعداد کتنی ہے مگر ہیں تو پاکستانی عوام ہی۔ پنجاب انگڑائی لے چکا ہے اور اس سیاسی سستی کو چستی میں کب تبدیل کرتا ہے، اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا۔ جو احباب عمران خان کو کٹھ پتلی اور تحریک انصاف کے کارکنوں کو برگر کلاس کہتے تھے وہ اپنی سیاسی نا پختگی کے باعث اوندھے منہ گر چکے ہیں مگر اپنی شکست ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ خدا جانے اس یدھ کا انجام کیا ہو گا مگر ایک بات طے ہے کہ ہماری ہئیت مقتدرہ اور ان کے سہولت کار مکس اچار حکمران اتحاد میرؔ کے اس شعر پر عمل پیرا ہیں؛
؎ میرؔ کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔