پاکستان میں مہنگائی کی شرح میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور خان صاحب کی سرکار جس تبدیلی کا وعدہ کر کے آئی تھی فی الحال تو سب کچھ اس کے برعکس ہو رہا ہے اور غریب طبقہ یہ کہہ رہا ہے کہ وہ اس تبدیلی کے بغیر ہی بھلے تھے۔ برطانوی جریدے دی اکانومسٹ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ دنیا کے 42 ممالک میں مہنگائی کے حساب سے پاکستان کا چوتھا نمبر ہے اور یہ تناسب تقریباً 9 فیصد ہے۔
جبکہ وزارت خزانہ کے اعدادوشمار کے مطابق یہ رپورٹ غلط ہے اور پاکستان مہنگائی کے حساب سے 30 ویں نمبر پر ہے۔ موجودہ حکومت یہ بھی کہہ رہی ہے کہ مہنگائی بڑھی ہے اور اس کی وجہ عالمی سطح پر کوویڈ کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عالمی سطح پر مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے مگر سب کچھ عالمی سطح سے جوڑ کر بری الذمہ ہو جانا بھی مناسب نہیں ہے کیوں کہ عالمی سطح پر یومیہ، ماہانہ یا سالانہ اجرتیں بھی اس حساب سے زیادہ ہیں۔ عالمی سطح پر بالخصوص برطانیہ، امریکہ، کینیڈا وغیرہ میں مزدور طبقے کے لیے کم ازکم اجرت کا معیار بھی مڈل کلاس طبقے کو مدنظر رکھ کر مقرر کیا گیا ہے اور اس کی خلاف ورزی کرنے والے مالک کے لیے سخت سزا یا جرمانہ ہے۔
ابھی یہ حالات ہیں کہ پاکستان میں اگر سبزی کی دوکان پر جا کر بڑھتے ہوئے داموں پر سوال اٹھایا جائے یا بحث کی جائے تو دوکاندار کے پاس ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ یہ سب تبدیلی اور نیا پاکستان کے کرشمے ہیں۔عمران خان صاحب ابھی تک ریاست مدینہ کی مثالیں دے کر لیڈر کو صادق اور امین قرار دے کر پاکستان کو ویسا بنانے پر ڈٹے ہوئے ہیں مگر مجھے سمجھ میں نہیں آتا وہ ایسی مماثلت قائم کرتے ہوئے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ریاست مدینہ میں کام کرنے والے تمام افراد ، تمام کابینہ بھی نیک، اور ایمان دار تھی۔ کیا خان صاحب اپنے علاوہ اپنے نیچے کام کرنے والوں کی ایمان داری اور دیانت کا حلف اٹھانے کو تیار ہیں؟
یہ مان لیتے ہیں کہ سابقہ حکمران کرپٹ تھے اور خان صاحب ایمان دار ہیں مگر صرف ان کی ایمان داری سے نہ تو غربت کم ہو گی اور نہ ہی غریب کا گزربسر ممکن ہے۔ پاکستان میں موجودہ حکومت میں جب بھی مہنگائی میں اضافہ ہوا تو عوام کو یہ سننے کو ملا، کہ پاکستانیو تم نے گھبرانا نہیں ہے۔ اب تو عوام یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ وزیراعظم صاحب اب آپ ہمیں گھبرا لینے دیجئے کیوں کہ ہمارا صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کو ہے۔
اب اگر مہنگائی کی وجوہات کا جائزہ لیں تو اس میں کئی عوامل آ جاتے ہیں جیسے کہ عالمی سطح پر قیمتوں میں اضافہ، پاکستان پر قرضوں کے بوجھ کو اتارنے کے لیے مہنگائی کر کے عوام پر بوجھ ڈالنا، مقامی سطح پر جو مصنوعات کسان یا فیکٹری سے عوام تک پہنچتی ہے وہ ڈائریکٹ آنے کی بجائے یا ڈائریکٹ کسی ایک سپر سٹور تک پہنچنے کی بجائے کئی ہاتھوں سے گزر کر قیمت میں اضافہ کرتے کرتے پہنچتی ہے۔ اس کے علاوہ بعض اوقات مارکیٹ کمیٹیاں یا دیگر حکومتی نمائندے قیمتوں پر قابو پانے کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دیگر حکومتی ادوار میں بھی مہنگائی ہوتی رہی ہے مگر عوام تو خان صاحب کو تبدیلی اور نیا پاکستان کے نعرے کی وجہ سے اقتدار میں لائی تھی۔عوام نے تو خان صاحب کے ان بیانات اور کنٹینر کی تقریروں پر اعتماد کیا تھا جس میں وہ دعوے کرتے تھے کہ ان کی حکومت آتے ہی گویا کوئی ایسی جادو کی چھڑی چلے گی کہ ملک میں دودھ کی نہریں بہیں گی،ہر شخص خوشحال ہو گا اور عوام کو ایسا پاکستان ملے گا جو مہنگائی، رشوت، کرپشن اور نااہل افراد سے پاک ہو گا۔
وزیراعظم صاحب کو سمجھنا ہو گا کہ عوام کی ان سے توقعات بہت زیادہ ہیں اور اس کا سہرا بھی خود ان کے سر ہے کیوں کہ انہوں نے عوام کو ایسے سہانے خواب دکھا دیے تھے کہ گویا وہ سیاست میں نئے ہیں اور ان پر اعتبار کر کے عوام بالکل بھی نہیں پچھتائیں گے کیوں کہ وہ اقتدار میں آتے ہی ایک فلاحی ریاست بنا دیں گے۔اور یہ معصوم عوام ہمیشہ کی طرح اس دفعہ بھی وعدوں پر یقین کر بیٹھی اور ابھی تک ان کے پورا ہونے کا انتظار کر رہی ہے۔
وزیراعظم صاحب ہمیں آپ کی ایمانداری اور نیک نیتی میں کوئی شک نہیں مگر جب تک آپ کے اردگرد نااہل اور بے ایمان افراد کا مجمع لگا رہے گا اور جب تک آپ مہنگائی پر قابو پانے کے لیۓ کوئی پالیسی وضع نہیں کریں گے تب تک یقین رکھیں کہ آپ کا دوبارہ اگلی دفعہ اقتدار میں آنا بہت مشکل ہو گا کیوں کہ عوام بہت معصوم ہیں وہ آپ کے دیے ہوئے تازہ زخموں کا مداوا پہلے سے آزمائے افراد میں ڈھونڈنے نکل پڑے گی۔
احتشام اعجاز بھلی ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں اور U.S. Press Association کے ممبر ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور لاہور ہائی کورٹ کے تاحیات رکن ہیں۔