'نئے آرمی چیف سینئر ترین جنرل ہوں گے یا پھر جونیئر ترین؛ مسلم لیگ (ن) ذہن بنا چکی ہے'

'نئے آرمی چیف سینئر ترین جنرل ہوں گے یا پھر جونیئر ترین؛ مسلم لیگ (ن) ذہن بنا چکی ہے'
صحافی اسد طور نے یوٹیوب پر اپنے حالیہ پروگرام میں متوقع آرمی چیف کے بارے میں کچھ اہم معلومات دی ہیں۔ اسد طور کا کہنا تھا کہ میری معلومات کے مطابق آرمی چیف کے عہدے کے لیے لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر اور لیفٹیننٹ جنرل محمد عامر فیورٹ ہیں جبکہ لیفٹیننٹ جنرل نعمان پرویز راجہ کو میں ڈارک ہارس سمجھتا ہوں۔ اس حوالے سے (ن) لیگ کے کیمپ میں کافی حد تک ذہن بنایا جا چکا ہے اور یہی عمران خان کو پریشانی ہے۔ اسی لیے وہ اس نام اور عہدے کو متنازع بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ستمبر 2018 میں 6 میجر جنرل ترقی پا کر لیفٹیننٹ جنرل بنے تھے۔ ان کی مدت چار سال تھی۔ اکتوبر اور نومبر میں یہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائر ہو جائیں گے۔ جیسے جیسے ان کو بیج لگتے گئے اور انہوں نے نئی پوزیشن پہ جوائننگ دی ویسے ویسے ان کی مدت شروع ہوتی گئی۔

لیفٹیننٹ جنرل عبدالعزیز جو اس وقت کور کمانڈر لاہور ہیں 20 اکتوبر کو ریٹائر ہو جائیں گے۔ لیفٹیننٹ جنرل ندیم ذکی منج اس وقت ڈائریکٹر جنرل ایف پی ڈی ہیں 19 اکتوبر کو ریٹائر ہو جائیں گے۔ لیفٹیننٹ جنرل محمد عدنان اس وقت ڈی جی ٹریننگ اینڈ اویلیوئشن ہیں اور 12 اکتوبر کو ریٹائر ہوں گے۔ لیفٹیننٹ جنرل شاہین مظہر کور کمانڈر منگلہ ہیں اور 5 نومبر کو ریٹائر ہوں گے۔ لیفٹیننٹ جنرل وسیم اشرف 19 نومبر کو ریٹائر ہوں گے۔

لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر اس وقت جی ایچ کیو میں کوارٹر ماسٹر جنرل ہیں۔ ان کی ریٹائرمنٹ ویسے تو 30 ستمبر 2022 کو طے تھی لیکن اب ان کی ریٹائرمنٹ 27 نومبر کو ہو گی۔ کہا جا رہا ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی پانے کے بعد بیج لگنے سے پہلے ہی عاصم منیر چھٹی پر چلے گئے تھے اس لیے ان کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ اب درست کرکے 30 ستمبر کے بجائے 27 نومبر کر دی گئی ہے۔ وہ اس وقت آرمی چیف کی ریس کا حصہ بن چکے ہیں اور سمری کے مطابق سب سے سینئر لیفٹیننٹ جنرل ہوں گے کیونکہ وہ اس وقت ریٹائر نہیں ہوئے ہوں گے اور فوج کے قواعد و ضوابط کے مطابق سینئر ترین 6 جرنیلوں کے نام آرمی چیف کے لیے بھجوائے جاتے ہیں۔ یہ سمری متوقع طور پر اگلے ماہ کے پہلے ہفتے میں جائے گی۔

جنرل باجوہ نے 29 نومبر کو ریٹائر ہونا ہے جبکہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر 27 نومبر کو ریٹائر ہو جائیں گے تو پھر کیسے وہ آرمی چیف بنیں گے؟ اس صورت میں کیا دوسرے ناموں پر غور کیا جائے گا؟ اس کے جواب میں اسد طور کہتے ہیں کہ وزیراعظم کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ صرف آرمی چیف ہی کو نہیں بلکہ کسی بھی لیفٹینٹ جنرل کو بھی مدت ملازمت میں توسیع دے سکتے ہیں۔ اس کی ایک مثال لیفٹیننٹ جنرل شجاع پاشا ہیں جب وہ ڈی جی آئی ایس آئی تھے تو انہیں ایک سال کی توسیع دی گئی تھی۔ اگر لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کو آرمی چیف بنانا مقصود ہوا تو انہیں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر توسیع دینا ہوگی۔ عاصم منیر کے بارے میں مشہور ہے کہ بہت محنتی ہیں۔ جب ڈی جی آئی ایس آئی تھے تو دفتر میں بہت زیادہ وقت کام کرتے رہتے تھے، ٹریک سوٹ میں بھی دفتر آ جاتے تھے۔ مزاج کے لحاظ سے کافی سخت ہیں۔



ان کے علاوہ کچھ دیگر جرنیل بھی آرمی چیف کے عہدے کے لیے موزوں امیدوار ہو سکتے ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا چیف آف جنرل سٹاف رہے ہیں قمر جاوید باجوہ کے۔ زبان و بیان کے معاملات میں کافی سخت تھے اور لکھی ہوئی رپورٹس میں بہت غلطیاں نکالتے تھے۔ غلطیاں نکالنے کی وجہ سے کام جمع ہوتا رہتا تھا۔ لیفٹیننٹ جنرل اظہر عباس جنرل باجوہ کے ملٹری سیکرٹری رہ چکے ہیں۔ وزیراعظم ہاؤس اور فوج کے اندر یہی رابطہ رکھتے تھے۔ اتنے زیادہ چانسز نہیں ہیں ان کے کچھ وجوہات کی بنا پر۔ لیفٹیننٹ جنرل نعمان راجا اس وقت نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے چیئرمین ہیں۔ کور کمانڈر پشاور بھی رہ چکے ہیں۔ عسکریت پسندی کے خلاف کارروائیوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ جیسے پاکستان میں تحریک طالبان پھر سے کارروائیاں تیز کر رہی ہے تو ان کے چانسز بن سکتے ہیں۔

لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید اس وقت کور کمانڈر بہاولپور ہیں۔ سیاسی معاملات میں مداخلت کی وجہ سے یہ خاصے متنازع رہے ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل محمد عامر اس وقت کور کمانڈر گوجرانوالہ ہیں۔ آصف زرداری جب صدر تھے تو یہ ان کے ملٹری سیکرٹری تھے۔ ان کے بھی کافی امکانات ہیں۔

اسد طور کا کہنا تھا کہ جنرل باجوہ نے امریکہ میں پاکستانی کاروباری شخصیات سے غیر رسمی گفتگو میں دو اہم اعلان کیے۔ ایک یہ کہ وہ توسیع نہیں لیں گے اور دوسرا یہ کہ فوج سیاست سے الگ ہو جائے گی اور میرے بعد بھی یہی حکمت عملی جاری رکھی جائے گی۔ جنرل کیانی بھی جب آرمی چیف بنے تھے تو انھوں نے بھی دو اعلان کیے تھے۔ پہلا یہ کہ ہم سیاست سے الگ ہو رہے ہیں اور دوسرا تمام سول اداروں میں تعینات فوجی سرابراہوں کو واپس بلا رہے ہیں۔ دوسری بات پر تو انہوں نے کافی حد تک عمل کیا مگر سیاست سے دور ہونے والا ان کا اعلان بس دعویٰ ہی رہا کیونکہ ان کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل احمد شجاع پاشا اس وقت 'عمران خان پراجیکٹ' پر کام کر رہے تھے۔ پاکستان تحریک انصاف کے جلسے کروا رہے تھے، بندے توڑ توڑ کر پی ٹی آئی میں بھیج رہے تھے۔ پھر میمو گیٹ پر بھی فوج اور آئی ایس آئی کھل کے کھیلی۔ اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو بھی کہنا پڑ گیا تھا کہ ریاست کے اندر ریاست نہیں چلے گی۔

جنرل قمر جاوید باجوہ کے سیاست سے الگ ہونے والے بیان کو ان کی ذاتی رائے سمجھا جائے تا واقعی یہ فوج کے ادارے کی سوچ ہے، یہ آنے والے وقت میں پتہ چلے گا۔