Get Alerts

'جنرل باجوہ' پِٹ چکی، نئی بیسٹ سیلر ہے؛ 'جنرل عاصم منیر!'

'جنرل باجوہ' پِٹ چکی، نئی بیسٹ سیلر ہے؛ 'جنرل عاصم منیر!'
رواں برس کا 29 نومبر تاریخی اہمیت کا حامل تھا۔ ایک کتاب بند تو دوسری رونما ہوئی۔ پہلی کتاب کا نام تھا؛ 'جنرل باجوہ!'، اپنے وقت کی بیسٹ سیلر۔ 2018 میں مارکیٹ میں آئی۔ بہترین بزنس کیا۔ آخری دنوں میں پٹ گئی۔ تمام بک سٹورز اور لائبریریوں نے یہ کہہ کر 'ردی بُرد' کر دیا کہ اب پرانی ہو چکی ہے۔ جِلد پھٹ چکی، صفحوں کو دیمک لگ گئی، فیکٹس اینڈ فگرز اور حوالے آؤٹ ڈیٹ ہو چکے۔ مزید براں نیا ٹرینڈ اور فیشن مارکیٹ میں آ چکا ہے جس کی ڈیمانڈ یہ نئی کتاب پوری کرتی ہے جس کا نام 'جنرل عاصم منیر' ہے۔ بات سچ نکلی۔ رونمائی کے بعد چند ہی گھنٹوں میں اربوں کاپیاں کھڑے کھڑے بک گئیں۔ دنیا کے تمام بیسٹ سیلرز کا ریکارڈ اس نے فٹا فٹ توڑ دیا۔

تعریف و توصیف میں اتنے بک ریویوز چھپے کہ انٹرنیٹ پر ٹریفک جام ہو گئی۔ ہر نامی گرامی سینیئر صحافی، پترکار، تجزیے والا بھائی، اینکر والا افلاطون اور بغل بچوں کی نئی نسل یوٹیوب بچہ اس کتاب کے چیدہ چیدہ پہلو بیان کرنا شروع ہو گیا۔ ایک کاپی ہم نے بھی خرید لی۔ کتاب وزن میں 'داستانِ امیر حمزہ' سے بھی کئی گنا زیادہ تھی۔ معلوم ہوا کہ دنیا کے بہترین دماغ اسے چوبیس گھنٹوں کی بنیاد پر اپ ڈیٹ بھی کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ نئے نئے ابواب کا بھی اضافہ کر رہے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ چند دنوں میں دنیا بھر میں کاغذ ہی ختم ہو جائے۔ اس صورت میں اس کا صرف سافٹ ایڈیشن موجود ہو گا۔ سقراطوں کے سقراط تو اس کے دوسرے حصے یعنی 'جنرل عاصم 2' پر بھی کام شروع کر چکے ہیں۔ اور کیوں نہ کریں؟ پہلے حصے نے ہی تھرتھلی مچا دی ہے۔ دوسرا حصہ نومبر 2025 سے پہلے ہی آ جائے گا۔ انشاء اللہ!

یہ ناچیز سینیئر جرنلسٹ تو نہیں البتہ سینیئر موسٹ جونیئر جرنلسٹ ضرور ہے۔ اس قابل تو نہیں کہ اس کتاب کی شان میں کچھ لکھ سکے لیکن یہ پاپی پیٹ بھی تو لگا ہوا ہے۔ تو کچھ نہ کچھ تو لکھنا ہی پڑے گا ورنہ میڈیا سے آؤٹ بھی ہو سکتا ہوں۔

سب سے پہلے تو وضو کیا، پھر یہ کتاب ہاتھ میں تھامی۔ کتاب اس جملے سے شروع ہوئی کہ باجوہ صاحب کی خدمات ملک و قوم کے لیے اتنی کثیر ہیں کہ اس پر ایک بھاری بھرکم کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ اس امر کا باقاعدہ کھلے دل سے اعتراف کیا گیا مگر ساتھ اس جملے کی اضافت بھی کی گئی کہ ایسی کتاب لکھنے کے بجائے دریا کو کوزے میں بند کرنا بہتر تھا۔ سو باجوہ صاحب کی طویل جہدوجہد غالب کے اس شعر میں سمیٹ دی گئی؛
؎ ہوئے تم دوست جس کے
دشمن اس کا آسماں کیوں ہو

اچھا اس کی تاویل یہ گھڑی گئی کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں امیر المومنین کی توہین کا سرے سے کوئی وجود ہی نہ تھا۔ مگر باجوہ صاحب کی رات دن کی مشقت سے یہ اصطلاح نام نہاد دانشوروں کے ڈرائنگ رومز سے نکل کر ہر ٹچے کی زبان پر آ گئی جس کا مظاہرہ عمران خان کے 'انصافی بچے' آج تک کر رہے ہیں۔

کتاب میں کچھ شکوہ و جواب شکوہ بھی ہے۔ مثلاً جب کائنات کے وفادار ترین کا نام ایوب کے ساتھ جوڑا گیا تو اس جنس نے شدید احتجاج کیا۔ چونکہ کچھ غیرت باقی تھی اس لیے جنرل ایوب اقتدار سے علیحدہ ہو گئے اور گمنامی میں مر گئے۔ لیکن کسی نے بھی فورس کے خلاف غلط زبان استعمال نہ کی۔ باجوہ کے 'بروٹس' عمران خان نے ان کا نام اس جنس سے جوڑ دیا جو ماحول کو صاف رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے لیکن پھر بھی ہم اس کا نام زبان پر لانا پسند نہیں کرتے۔ اسی 'بروٹس' نے اس سے ملتی جلتی زبان کی ترویج فورس اور دیگر جرنیلوں کے خلاف کی۔ چونکہ باجوہ صاحب اپنی تمام تر توانائی 'بروٹس' پر صرف کر چکے تھے لہٰذا ضمیر میں اتنی انرجی بھی باقی نہ تھی کہ ایوب کی طرح بھریا میلہ چھوڑ کر عزت سے گوشہ گمنامی اختیار کر سکیں۔ آخری وقت تک مورچہ زن رہے۔

اس حقیر سے صحافی کی رائے میں کتاب میں سب سے اہم بات 'اے پولیٹیکل' یعنی غیر سیاسی کے حوالے سے تھی۔ وہ یہ کہ ہم کیسے غیر سیاسی رہ سکتے ہیں جب ہر سیاست دان کی نظر میں گورننس کا اہم جزو اپنے مخالف کی پگڑی اچھالنا ہو۔ پہلے سماجی میڈیا نہ تھا تو یہ کام دن میں ایک بار کیا جاتا تھا۔ صبح کے اخبار سے پتہ لگتا تھا کہ کس نے کس پر کتنا کیچڑ اچھالا ہے۔ زبان نا شائستہ ہو سکتی تھی مگر گالم گلوچ کے درجے پر نہیں پہنچتی تھی۔ اب یہ کام ہر لمحے سر انجام دینا پڑتا ہے گالی کی شکل میں کیونکہ اس 'ہر ایرا غیرا نتھو غیرا میڈیا' میں خبر ہر پانچ منٹ بعد آؤٹ ڈیٹیڈ ہو جاتی ہے۔

اسی کارن فوج کو معمولی کام اپنے ذمے لینے پڑ جاتے ہیں۔ مثلاً سیلاب و زلزلے میں لوگوں کی مدد کرنا، محرم اور میلاد کے جلوسوں میں سکیورٹی فراہم کرنا، پولنگ سٹیشنز کی حفاظت کرنا، نہروں کی بھل صفائی کرنا، بجلی چوروں کو پکڑنا، ہاکس بے پر لوگوں کو سمندر میں تیرنے سے روکنا، کورونا میں لاک ڈاؤن پر عمل کروانا، برساتی نالوں کی صفائی یقینی بنانا، مردم شماری کروانا، بچوں کو پولیو کے قطرے پلانا، وغیرہ وغیرہ۔ پھر بھی کرپٹ ترین جرنیل؟ کیا سیاست دان فرشتے ہیں؟ احتساب کا فلسفہ اس نالے پر لاگو نہیں ہوتا جہاں سب ہی ننگے ہوں۔ لہٰذا سیاست دان آپس میں بچوں کی طرح لڑتے رہیں۔ انہیں یہی کام ڈھنگ سے آتا ہے۔ صرف یہی پاکستانی فلم انڈسٹری کا نام روشن کر سکتے ہیں۔ کیونکہ سب سے زیادہ دیکھی جانے والی فلمیں یعنی ایک دوسرے کی قابل اعتراض وڈیوز یہی پروڈیوس، ڈائریکٹ اور ڈسٹری بیوٹ کرتے ہیں۔

کتاب میں معیشت پر بھی ایک مفصل مضمون شامل ہے۔ لکھا ہے اور سچ ہے کہ اگر ہم غیر سیاسی ہو گئے تو ملکی معیشت کا بھٹّہ بیٹھ جائے گا۔ ملک کی کمائی کا سب سے بڑا ذریعہ تو فوجی فرٹیلائزر کا ٹیکس ریٹرن ہے! اور پھر غریب کمی کمینوں کے سر پر چھت نہ رہے گی۔ کیونکہ سب سے بہترین ہاؤسنگ سوسائٹی تو ڈی ایچ اے بناتی ہے یا اس کا کزن بحریہ ٹاؤن!

کتاب میں کچھ مزاحیہ باتیں بھی ہیں کہ سیاست دانوں کو اب بڑا ہو جانا چاہئیے۔ یہ آپس کے جھگڑے رات کی تاریکی میں سپریم کورٹ اور دن کے اجالے میں جی ایچ کیو میں نہ لائے جائیں۔ خود ہی لڑ مر کر طے کر لیا کریں۔ ان کی آپس کی لڑائیاں اور کھیل ختم ہوں تو فوج کشمیر کو آزاد کرائے، فلسطین فتح کرے، دہلی کے لال قلعے کو پاکستان کا نیا دارالخلافہ قرار دے اور اس کے بعد ٹی ٹی پی سے نمٹے اور سب سے آخر میں آبپارہ والی سڑک کا قبضہ لال مسجد والوں سے چھڑائے۔

Contributor

محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل Yamankalyan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔