نواز شریف ملک کو بحرانوں سے نکالنے میں کامیاب ہو پائیں گے؟

موجودہ معاشی بحران میں آ کر ملک کی باگ ڈور سنبھالنا آسان فیصلہ نہیں، یہ ارادہ وہی شخص یا سیاسی جماعت کر سکتی ہے جس کو اپنی صلاحیتوں پر اعتماد ہو۔ نواز شریف پر ماضی میں لگے تمام تر الزامات اس وقت بے وقعت ہو چکے ہیں اور ان کی واپسی خالصتاً ملک و قوم کی فلاح کے لیے ہو رہی ہے۔

نواز شریف ملک کو بحرانوں سے نکالنے میں کامیاب ہو پائیں گے؟

نواز شریف کی واپسی میں کوئی رکاوٹ نہیں رہی۔ اب تو ان کو ہٹانے والی کہانی کا پول بھی کھل چکا ہے جس پر کوئی شرمندہ ہو یا نہ ہو مگر اس کو تنقید کا سامنا ضرور کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ عوامی ہمدردیاں نواز شریف کے ساتھ ہیں اور اب عدلیہ سے لے کر اسٹیبلشمنٹ تک کہیں بھی ان کی واپسی پر کوئی تحفظات نہیں ہیں۔ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور جغرافیائی لحاظ سے بھی اس کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کی سیاست کو بیرونی اثرات سے علیحدہ نہیں رکھا جا سکتا اس لئے پاکستان میں بااعتماد اور پختہ سوچ رکھنے والی قیادت بھی مجبوری بن چکی ہے۔

رکاوٹ کی باتیں ان کے چار ججز اور دو جرنیلوں کے احتساب کی بات پر ہونی شروع ہوئیں اور ان باتوں پر بعض حلقوں بشمول ان کی جماعت میں بھی تشویش پیدا ہوئی مگر اس سے کوئی اس طرح کا خطرہ قطعاً بھی نہیں جو نواز شریف کے سیاسی کردار یا قد کاٹھ سے زیادہ ہو۔ ہاں البتہ ان کو قائل ضرور کیا گیا ہو گا کہ اب ملک کے معاشی حالات سیاسی انتشار پسندی نہیں بلکہ مفاہمت پسندی کا تقاضا کر رہے ہیں جس پر بیانیے میں تبدیلی بھی دیکھی جا رہی ہے۔ خبروں کی متلاشی صحافتی تشنگی کو چند دن کے لئے سامان کاروبار ضرور مل گیا ہے اور اس سے نواز شریف کو بھی مستقبل کی سیاست کے بارے واضح حکمت عملی اخذ کرنے میں مدد مل گئی ہو گی۔

کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے کے بغیر نواز شریف کی سیاست بے رنگ سی ہو جائے گی تو میرا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کی قیادت بدل جانے سے اب عوام کے اندر ان کے خلاف وہ تحفظات نہیں رہے بلکہ سیاست دانوں کے آپس کے اختلافات اور 9 مئی کے واقعات کے بعد سے عوامی ہمدردیاں فوج کے ساتھ ہو گئی ہیں اور اب اگلے انتخابات کا بیانیہ معیشت کی مضبوطی ہو گا جس کی ٹریک ہسٹری صرف مسلم لیگ نواز کے پاس ہے۔

عوام کے تحفظات کا ان کو بخوبی اندازہ ہے کیونکہ ان کی جماعت کی پچھلے ڈیڑھ سال کی حکومت کے دوران عوام میں تشویش ضرور پیدا ہوئی جس کی وجہ مہنگائی، بیروزگاری اور غربت میں اضافہ ہے۔ یہ تشویش بجا ہے اور عوام کو ان وجوہات کا اندازہ نہیں مگر ریاست کے ذمہ دار حلقوں کو اس کا اندازہ ضرور ہے۔

نواز شریف کی واپسی کا تعلق ان کی ذات سے زیادہ عوام اور ملک و قوم کے ساتھ جڑا ہے۔ نواز شریف کو اگر آنے میں کوئی رکاوٹ پیش آ سکتی ہے تو وہ عوام کی طرف سے عدم توجہی ہی ہو سکتی ہے جس کا سارا ملبہ شہباز شریف کے ساتھ اختلاف کی افواہوں نے اپنے اندر سمو لیا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو موجودہ معاشی بحران کی صورت حال میں آ کر ملک کی باگ ڈور سنبھالنا کوئی آسان کام نہیں اور اس کا ارادہ وہی شخص یا سیاسی جماعت کر سکتی ہے جس کو اپنی صلاحیتوں پر اعتماد ہو۔ نواز شریف پر ماضی کے تمام تر الزامات اس وقت بے وقعت ہو چکے ہیں اور وہ ایک آزاد ماحول میں پر امن زندگی گزار رہے ہیں لہٰذا ان کی واپسی خالصتاً ملک و قوم کی فلاح کے لیے ہی ہو رہی ہے۔

جہاں تک نواز شریف اور شہباز شریف میں اختلافات کی بات ہے وہ نظریاتی ضرور ہو سکتا ہے مگر مفاداتی نہیں۔ نواز شریف کا جھکاؤ سول بالادستی کی طرف ہے اور شہباز شریف کا رجحان مفاہمتی پالیسی کی طرف ہے۔ مگر ایک دوسرے سے بے وفائی کی حد تک اختلاف میں اگر کوئی جان ہوتی تو جب 2018 میں شہباز شریف کو حکومت کی پیش کش کی گئی تھی اس وقت ہی یہ کوششیں رنگ لے آتیں۔

نواز شریف کی گرفتاری یا اس سے ڈر کی افواہیں بھی سیاسی تجزیہ کاروں کی ناپختہ سوچ کی پیداوار ہیں۔ اگر ان کو اپنے مقدمات ختم کروانے کا خبط یا گرفتاری سے بچنے کا ڈر ہوتا تو وہ اپنے بھائی کے وزیر اعظم ہوتے ہوئے کوشش کرتے۔ اس وقت عدلیہ سے ان کو تحفظات ضرور تھے مگر ان کا حل بھی موجود تھا۔ جو شخص اپنے بدترین سیاسی مخالفین کی حکومت میں اپنی بیٹی کا ہاتھ تھام کر گرفتاری کے لئے اپنے آپ کو پیش کر سکتا ہے اس کی ذات سے منسوب اس طرح کی افواہوں کا پھیلانا منطقی بات نہیں لگتی۔ اب تو ویسے بھی ان کے خلاف مقدمات اپنا وزن کھو چکے ہیں۔

البتہ جو لوگ اب بھی عمران خان سے جذباتی لگاؤ یا اپنی ضد کی بنیاد پر امیدیں لگائے بیٹھے ہیں ان کو اب اس سراب سے نکل آنا چاہئیے کیونکہ اگر ایسا ہونا ہوتا تو ان کی ریڈ لائن آج قائم ہوتی۔ اور اس ساری صورت حال کی ذمہ دار ان کی غیر ذمہ دارانہ سیاست اور انتشاری پالیسیاں ہیں جنہوں نے ان پر ملکی اداروں کا اعتماد متزلزل کیا اور اب ان کی سیاست میں قریب قریب واپسی کو خواب دیکھنے والوں کی خوش فہمیاں ہی کہا جا سکتا ہے۔ ان کی اب حکومت تو کیا سیاست میں شمولیت کو بھی خطرناک غلطی تصور کیا جا رہا ہے۔ عوام کے اندر جو تھوڑی بہت ہمدردی ملی ہے وہ بھی پی ڈی ایم کی حکومت کے دوران بڑھنے والی مہنگائی، بیروزگاری اور غربت کے سبب تھی اور اگر نواز شریف کو پانچ سال حکومت کرنے کا موقع مل گیا تو وہ بھی ختم ہو جائے گی۔ اگر عمران خان حادثاتی طور پر عوام کی سادگی سے فائدہ اٹھا کر آ بھی گئے تو اپنی ناقص کارکردگی کی بنیاد پر اس ہمدردی کو قائم نہیں رکھ سکیں گے۔

نواز شریف کا بغض صرف سیاسی مخالفین میں ہی نہیں پایا جاتا بلکہ ان کی اپنی جماعت کے ان لوگوں میں بھی پایا جاتا ہے جو نواز شریف کے ووٹ کی خاطر پہلے خوشامدیں کر کے ٹکٹ حاصل کرتے ہیں اور پھر جب اسمبلی میں پہنچ جاتے ہیں تو پھر وہ چاہتے ہیں کہ وزیر اعظم ہاؤس میں میلے کا سماں ہو اور ان کو پروٹوکول دیا جائے۔ مگر ان سے کہا جاتا ہے کہ وقت ضائع نہ کریں کام کریں جس سے وہ ناراض ہو جاتے ہیں۔ تیسرا طبقہ سرکاری افسران کا ہے جن کو کام کرنا پڑتا ہے اور میرٹ سے ہٹ کر کوئی کام کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ اس لئے کام پر یقین رکھنے والے تو خوش ہوتے ہیں مگر باقی پریشان ہوتے ہیں۔

اب شریف برادران کی جوڑی کو اقتدار دینے سے روکنا اس لئے بھی مشکل لگ رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں کا تارا ہونے کے ناطے شہباز شریف کی ورتھ بن چکی ہے جبکہ نواز شریف پر عالمی سطح کا اعتماد بھی ہے اور ہماری معیشت کی مجبوری بھی یہی ہے۔ ایسے میں ان کے خلاف بغض رکھنے والوں کو چاہئیے کہ اپنی سوچ کو بدلیں اور ملک و قوم کی فلاح کے لئے ان کی طاقت بنیں۔ پاکستان کی ترقی کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ موجودہ معاشی بدحالی سے نکالنے کی امید نواز شریف سے ہی وابستہ کی جا سکتی ہے جس کی بنیاد ان کی کارکردگی، عالمی سطح پر اچھے تعلقات اور ان پر اعتماد ہے جس کے پیش نظر ان کی واپسی کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔