نیب قانون کے تحت ججز اور جرنیلوں کا بھی احتساب ہونا چاہیے: مزمل سہروردی

تجزیہ کار مزمل سہروردی نے کہا کہ کیا سپریم جوڈیشل کونسل جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف بدعنوانی کے مرتکب پائے جانے پر ان کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کے لیے نیب کو ہدایت کرے گی؟ جج صاحبان کے احتساب کا آغاز  تو سپریم کورٹ کے اس اقدام سے ہو گا۔ اب وقت آگیا ہے کہ عدلیہ اپنے ادارے کے اندر احتساب شروع کرے۔کیونکہ جج خود کو 'مقدس گائے' سمجھ رہے ہیں۔

نیب قانون کے تحت ججز اور جرنیلوں کا بھی احتساب ہونا چاہیے: مزمل سہروردی

نیب ترامیم کیس میں سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ کا 15 ستمبر کے فیصلے سے اختلافی نوٹ جاری کر دیا گیا ہے جس میں فاضل جج نے لکھا کہ نیب قانون کے تحت ججز اور فوجی افسران کا احتساب ہو سکتا ہے۔ تاثرہےکہ فوجی افسران اورججز کی کرپشن کا کوئی احتساب نہیں ہو سکتا۔ نیب ترامیم کے تحت فوجی افسران اور ججزبھی قابل احتساب ہیں۔

نیا دور ٹی وی پر ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار مزمل سہروردی نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا کہ نیب قانون میں کی گئی ترامیم خالصتاً ایگزیکٹو معاملہ ہے لہٰذا عدالت مداخلت نہیں کرسکتی۔ قانون سازی جانچنا پارلیمنٹ اور جمہوریت کو نیچا دکھانے کے مترادف ہے۔

فاضل جج نے مزید لکھا کہ پارلیمان کے بنائے تمام قوانین بالآخرکسی نہ کسی انداز میں بنیادی حقوق تک پہنچتے ہیں۔   نیب قانون کے تحت سرکاری افسران کی طرح فوجی افسران اور ججزبھی قابل احتساب ہیں۔

نیب قوانین میں ترامیم کے حوالے سے سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ کے اختلافی نوٹ پر بات کرتے ہوئے تجزیہ کار نے کہا کہ عدالت عظمیٰ کا پانچ رکنی بینچ جسٹس شاہ کے موقف سے اتفاق کرے گا اور سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور ہم خیال بینچ کا فیصلہ اُڑا دیا جائے گا۔

تجزیہ کار مزمل سہروردی نے کہا کہ کیا سپریم جوڈیشل کونسل (SJC)  جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف بدعنوانی کے مرتکب پائے جانے پرقومی احتساب بیورو (نیب) کو ان کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت کرے گی؟ جج صاحبان کے احتساب کا آغاز  تو سپریم کورٹ کے اس اقدام سے ہو گا۔ اب وقت آگیا ہے کہ عدلیہ اپنے ادارے کے اندر احتساب شروع کرے۔کیونکہ جج خود کو 'مقدس گائے' سمجھ رہے ہیں۔

مزمل سہروردی نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جسٹس ستار کا موقف ہے کہ جس فون کال کی ریکارڈنگ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ثاقب نثار کے بیٹے نے پارٹی ٹکٹ ایک کروڑ روپے میں فروخت کیا وہ فون کالز غیر قانونی طور پر ریکارڈ کی گئیں۔

تجزیہ کار نے کہا کہ جسٹس ستار سابق چیف جسٹس کے خلاف تحقیقات کو روک رہے ہیں۔ وہ انہیں بچا رہے ہیں۔ عدلیہ سابق ججوں کا احتساب بھی نہیں ہونے دے رہی۔جب جج ہی ایک دوسرے کا احتساب نہیں ہونے دیں گے تو پھر کون احتساب کرے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ججز سیاست دانوں کے خلاف مقدمات کی سماعت کے دوران ذاتی طور پر ان سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔ ججز کے لیے ایک ضابطہ اخلاق ہونا چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار کو چاہیے کہ حکم امتناعی اٹھائیں اور سابق اعلیٰ جج کے احتساب کی اجازت دیں۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں اسد قیصر اور بیرسٹر سیف کی جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے مزمل سہروردی نے کہا کہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے ان کے اس اقدام پر پارٹی رہنماؤں کو خوب لتاڑا ہے۔ اسی لیے اب دونوں اپنی ملاقات کے حوالے سے وضاحتیں جاری کر رہے ہیں۔ 

تجزیہ کار نے انکشاف کیا کہ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ فیضان بنگش کی بطور پرنسپل سیکرٹری تقرری کے خواہاں تھے لیکن بنگش کو وفاقی سیکرٹری ہونے کے باوجود انٹیلی جنس کلیئرنس نہیں ملی جبکہ کیپٹن (ریٹائرڈ) خرم آغا کو انٹیلی جنس کلیئرنس مل گئی کیونکہ ان کے والد ایک تھری سٹار جنرل رہ چکے ہیں اور یہ خالد کھرل کے داماد ہیں۔ اور وہ جلد ہی نگران وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری کے عہدے پر تعینات ہو جائیں گے۔