جسٹس منصور علی شاہ  کی نیب ترامیم کیس میں فل کورٹ بنانے کی تجویز

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ میری ریٹائرمنٹ قریب آن پہنچی ہے۔یہ انتہائی اہم مقدمہ ہے مجھے ہر صورت فیصلہ دینا ہو گا۔ اگر فیصلہ نا دے سکا تو میرے لیے باعث شرمندگی ہو گا۔

جسٹس منصور علی شاہ  کی نیب ترامیم کیس میں فل کورٹ بنانے کی تجویز

جسٹس منصور علی شاہ نے نیب ترامیم کیخلاف کیس میں فل کورٹ تشکیل دینے کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے معاملات فل کورٹ ہی سن سکتی ہے۔

سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف کیس کی سماعت ہوئی۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر 47 ویں سماعت کی۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے سماعت کے آغاز میں ہی فل کورٹ تشکیل دینے کی تجویز دیتے ہوئے ریمارکس دیے کہ میں نے خصوصی عدالتوں سےمتعلق کیس میں 22 جون کو نوٹ لکھا۔ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ کیس، فل کورٹ کو سنناچاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ابھی تک پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ کا فیصلہ نہیں ہوا۔ عدالت پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کا فیصلہ کرے یا فل کورٹ تشکیل دے۔ اگر فیصلہ ہو جاتا تومعاملہ مختلف ہوتا۔ چیف جسٹس سے آج بھی درخواست کرتا ہوں کہ نیب ترامیم فل کورٹ سنے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے درخواست گزار کے وکیل مخدوم علی خان سے استفسار کیا بتائیں کیا یہ بینچ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت نیب ترامیم کیس کی سماعت جاری رکھ سکتا ہے؟ جبکہ چیف جسٹس نے مخدوم علی خان کو ہدایت کی کہ اگلی سماعت پر اس نکتے پر تیاری کرکے آجائیں۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ کے نکتے سے متفق ہوں۔ اس نکتے پر عدالت کی معاونت تیاری کے بعد کرسکوں گا۔عدالت نیب ترامیم کے قابل سماعت ہونے کی حد تک سماعت جاری رکھ سکتی ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اگر واضح طور پر سمجھتے ہیں کہ آرٹیکل184/3 کے تحت یہ کیس قابل سماعت ہے تو سماعت چلے گی۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ اگر عدالت نے نیب ترامیم کیس کی سماعت مکمل کرلی ہے تو پھر یہی بینچ ہوسکتا ہے بصورت دیگر قانونی طور پر یہ بینچ کیس کی سماعت نہیں کرسکتا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ اختلافِ رائے کے باوجود عدالتی فیصلہ اکثریتی ججز کا ہوتا ہے۔ اب تک 27 سماعتوں پر درخواست گزاروں اور 19 پر مخدوم علی خان نے دلائل دیے۔ یہ اتنا لمبا کیس نہیں تھا، کیس کے ناقابل سماعت ہونے پر مخدوم علی خان اچھے دلائل دے چکے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ فریقین آئندہ سماعت پر حتمی دلائل دیں۔ یہ کیس 2022سے زیر التواء ہے۔ عدالت کے سامنے 2022 کی نیب ترامیم چیلنج کی گئی تھیں۔ ضروری نہیں کیس کے میرٹس پر فیصلہ دیں۔ نیب ترامیم کیخلاف دائر کی گئی درخواست کے قابل سماعت ہونے پر بھی فیصلہ دے سکتے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ 2023 میں کی گئی ترامیم کا جائزہ ہم لے سکتے ہیں۔  2023میں نیب قانون میں کی گئی ترامیم کو ہمارے سامنے کسی نے چیلنج ہی نہیں کیا۔ نئی نیب ترامیم اور اپنے تحریری جوابات جمع کرا دیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ میری ریٹائرمنٹ قریب آن پہنچی ہے۔یہ انتہائی اہم مقدمہ ہے مجھے ہر صورت فیصلہ دینا ہو گا۔ اگر فیصلہ نا دے سکا تو میرے لیے باعث شرمندگی ہو گا۔

سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیخلاف کیس کی سماعت 28 اگست تک ملتوی کردی۔