'نیب ترامیم ایگزیکٹو معاملہ ہے لہٰذا عدالت مداخلت نہیں کرسکتی'، جسٹس منصورعلی شاہ کا اختلافی نوٹ 

جسٹس منصورعلی شاہ نے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ پارلیمنٹ نے جو کیا وہ پارلیمنٹ ہی ختم کر سکتا ہے اور  پارلیمنٹ قانون میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ قانون ختم بھی کر سکتا ہے۔ پارلیمنٹ کو یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ وہ پورا نیب قانون ہی ختم کر دے۔

'نیب ترامیم ایگزیکٹو معاملہ ہے لہٰذا عدالت مداخلت نہیں کرسکتی'، جسٹس منصورعلی شاہ کا اختلافی نوٹ 

نیب ترامیم کیس کی سماعت کرنے والے بینچ کے رکن جسٹس منصورعلی شاہ کا اختلافی نوٹ جاری کردیا گیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ نیب قانون میں کی گئی ترامیم خالصتاً ایگزیکٹو معاملہ ہے لہٰذا عدالت مداخلت نہیں کرسکتی۔ قانون سازی جانچنا پارلیمنٹ اور جمہوریت کو نیچا دکھانے کے مترادف ہے۔

سپریم کورٹ نے 15 ستمبر کو نیب ترامیم کو کالعدم قرار دیا تھا، اور عدالت نے 1-2 کی اکثریت سے فیصلہ جاری کیا تھا۔ بینچ میں شامل جسٹسس منصور علی شاہ نے فیصلے سے اختلاف کیا تھا اور ایک اختلافی نوٹ بھی تحریر کیا تھا۔

فیصلے کیخلاف جسٹس منصور علی شاہ کا 27 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ جاری کردیا گیا ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے بنجمن کارڈوزو کے قول سے نوٹ کا آغاز کیا، اور لکھا کہ کارڈوزونے کہا تھا اکثریت کی آواز طاقت کی فتح کی ہو سکتی ہے۔ انٹونیا سکالیا نے درست کہا تھا اختلاف عدالت کے وقار کو کم کرنے کے بجائے بڑھاتا ہے۔عدالتوں کو ہنگامہ آرائی سے بالا اور بدلتی سیاست سے بے نیاز ہوکر جمہوریت کے مستقبل پر نگاہیں جمانی چاہیے۔ سیاسی جماعتوں کے برعکس عدالتوں کو عوامی حمایت حاصل کرنے کی ضرورت نہیں۔ عدالتوں کو آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کرنا چاہیے بھلے عوامی جذبات ان کے خلاف ہوں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ عدلیہ قانون سازی کا اس وقت جائزہ لے سکتی ہے جب وہ بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہو لیکن قانون سازوں کے مفاد کو سامنے رکھ کر قانون سازی جانچنا پارلیمنٹ اور جمہوریت کو نیچا دکھانے کے مترادف ہے۔

اختلافی نوٹ میں جسٹس منصور نے لکھا کہ ہر ادارے کو دوسرے کا احترام کرنا چاہیے۔ جمہوریت کی بقاء کے لیے باہمی برداشت اور تحمل لازم ہے۔ 

جسٹس منصور نے لکھا کہ عوامی ووٹوں سے منتخب پارلیمنٹ نے نیب قانون میں ترامیم کیں۔چیئرمین پی ٹی آئی نے نیب ترامیم کی مخالفت یا حمایت کے بجائے اسے عدالت میں چیلنج کر دیا۔

اختلافی نوٹ میں جسٹس منصور نے لکھا کہ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن کے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے سے فیصلے سے متفق نہیں کیونکہ نیب ترامیم سے بنیادی حقوق متاثر نہیں ہوئے اور اکثریتی فیصلہ پبلک سرونٹ کی درست تعریف کرنے میں ناکام رہا۔ تعزیرات پاکستان کے تحت بھی پبلک آفس ہولڈر کے خلاف کارروائی ممکن ہے کیونکہ تعزیرات پاکستان کے تحت پبلک آفس ہولڈر پبلک سرونٹ ہیں۔

اختلافی نوٹ میں انہوں نے لکھا کہ ممبر پارلیمنٹ کے خلاف ٹیکس چوری، منی لانڈرنگ، کرپشن یا غیر قانونی طریقے سے دولت بنانے پر ٹیکس قانون، انسداد منی لانڈرنگ ایکٹ اور تعزیرات پاکستان کے تحت کارروائی ہوسکتی ہے۔ نیب کتنی کرپشن پر کارروائی کر سکتا ہے یہ معاملہ پالیسی میٹر ہے۔ کتنی کرپشن پر نیب کارروائی کرے یہ تعین کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے عدلیہ کا نہیں۔

جسٹس منصور نے لکھا کہ عدلیہ پارلیمنٹ کی قانون سازی کی سکورٹنی نہیں کر سکتی۔ کتنی مالیت کی کرپشن ہوگی تو وہ میگا سکینڈل کہلائے گا۔ یہ تعین کرنا عدلیہ کا نہیں بلکہ پارلیمنٹ کا اختیار ہے اور عدلیہ پارلیمنٹ کی اہلیت پر سوال نہیں اٹھا سکتی۔ عدلیہ پارلیمنٹ کو اپنی تجاویز کے ذریعے دباؤ میں نہیں لاسکتی۔

اختلافی نوٹ میں یہ بھی لکھا کہ آئین پاکستان نے ریاست کے تینوں ستونوں کو مکمل خود مختاری دے رکھی ہے۔ اختیارات کی تکون آئین کا بنیادی ڈھانچہ ہے۔ پارلیمنٹ کا کام قانون بنانا ہے اور منتخب حکومت کا کام پارلیمنٹ کے قانون پر عمل درآمد کرانا ہے جبکہ عدلیہ کا کام پارلیمنٹ کے بنائے قانون کی تشریح کرنا ہے۔

جسٹس منصور نے لکھا کہ اکثریتی فیصلے میں وجہ نہیں بتائی گئی نیب ترامیم کیسے بنیادی حقوق سے متصادم ہیں۔ طویل سماعت کے دوران بار بار سوال پوچھا جاتا رہا نیب ترامیم بنیادی حقوق سے کیسے متصادم ہیں۔ عدالت کے اس سوال کا جواب چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل دینے میں ناکام رہے۔

اختلافی نوٹ میں انہوں نے لکھا کہ آئین پاکستان نے ایک سیاست دان کے احتساب کا طریقہ کار طے کر رکھا ہے۔منتخب سیاست دان کا آئینی طریقہ کار سے احتساب ذریعہ ووٹ ہے۔ پارلیمنٹ نے جو کیا وہ پارلیمنٹ ہی ختم کر سکتا ہے اور   پارلیمنٹ قانون میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ قانون ختم بھی کر سکتا ہے۔ پارلیمنٹ کو یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ وہ پورا نیب قانون ہی ختم کر دے۔ فیصلے میں اس بات کو نہیں پرکھا گیا کہ پارلیمنٹ نے کونسا کام غلط کیا ہے۔ ارکان اسمبلی کے احتساب کو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی سے جوڑنے کی کوشش کی گئی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ پارلیمنٹ کا قانون سازی کا اختیار کبھی ختم نہیں ہوتا۔ اکثریتی فیصلہ پارلیمنٹ کے اختیارات کو سمجھنے میں ناکام رہا۔ اکثریتی فیصلہ آئین میں دی گئی اختیارات کی تقسیم کی مثلث کو سمجھنے میں بھی ناکام رہا جو جمہوری نظام کی بنیاد ہے۔ سپریم کورٹ کے غیر منتخب ججز منتخب ارکان اسمبلی کی پالیسی کا کیسے جائزہ لے سکتے ہیں۔  بنیادی آئینی حقوق کی خلاف ورزی کے بغیر عدالت قانون سازی کا جائزہ نہیں لے سکتی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے مزید تحریر کیا کہ میری عاجزانہ رائے میں آئینی سکیم کیخلاف ہے۔ آئین کے مطابق ریاست اپنی طاقت اور اختیار عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کرے گی۔