آئین اور قانون چیف جسٹس کی خواہشات کے تابع نہیں, پارلیمنٹ نے اچھی نیت سے قانون سازی کی: چیف جسٹس

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ اس سے پہلے کہ دنیا انگلی اٹھائے۔ میں خود پر انگلی اٹھاتا ہوں۔ آرٹیکل 184 (3) کے تحت ہزاروں مقدمات میں اختیارات استعمال کیے گئے۔ کچھ عوامی مفاد کے لیے تھے لیکن کچھ ذاتی مفاد کے لیے کیے گئے. آپ اس کی وضاحت نہیں کر رہے ہیں۔ آرٹیکل 184 (3) کا استعمال پاکستان کی حقیقت ہے. یا تو دلیل دیں کہ اس کا صحیح استعمال ہوا یا پھر کہہ دیں کہ ایسا نہیں ہوا اور پھر اس کا کوئی حل بتائیں۔

آئین اور قانون چیف جسٹس کی خواہشات کے تابع نہیں, پارلیمنٹ نے اچھی نیت سے قانون سازی کی: چیف جسٹس

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کی سماعت کے دوران  چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ  نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ نے اچھی نیت سے قانون سازی کی۔ آئین اور قانون چیف جسٹس کی خواہشات کے تابع نہیں ہیں اگر ایسا ہوا تو یہ آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کے لیے تباہ کن ہوگا۔ آئین کا ملازم ہو اور اللہ کو جوابدہ ہوں۔ بطور چیف جسٹس خود کو ماسٹر نہیں سمجھتا۔ تمام معاملات قانون اور آئین کے مطابق  چلنے چاہئیں۔ چیف جسٹس نے دلائل مکمل ہونے پر سماعت کل صبح ساڑھے گیارہ بجے تک کے لیے ملتوی کر دی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں فل کورٹ بینچ جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل ہے۔

 دوران سماعت، سپریم کورٹ میں پریکٹس پروسیجر کیس میں اضافی دستاویز جمع کرائی گئیں۔

اضافی دستاویز میں پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کی پارلیمنٹ کارروائی کا ریکارڈ جمع کرایا گیا۔ درخواست گزار امیر خان کی جانب سے وکیل خواجہ طارق رحیم نے جمع کرایا۔ متفرق درخواست میں سپریم کورٹ سے اضافی دستاویز کو منظور کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔

سپریم کورٹ میں جمیعت علمائے اسلام ف نے بھی تحریری جواب جمع کر رکھا ہے جس میں استدعا کی گئی کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستیں مسترد کی جائیں۔ عدالتی فیصلوں کے مطابق مذکورہ ایکٹ آئینی اور قانون سے متصادم نہیں ہے۔ پارلیمنٹ ہی وہ فورم ہے جو قانون بنا سکتا ہے یا اس میں ترمیم کرسکتا ہے۔

جے یو آئی نے جواب میں موقف اپنایا کہ درخواست گزاروں کا یہ موقف بے بنیاد ہے کہ مذکورہ قانون آرٹیکل 184(3) کے متصادم ہے۔ مذکورہ قانون سے عدالت عظمیٰ کو حاصل اختیارات میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ آئین پاکستان اختیارات کسی ایک فرد کو تفویض نہیں کرتا۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈپروسیجرایکٹ کیس کی سماعت کل ساڑھے11بجےتک ملتوی کردی۔

سماعت کا احوال:

سماعت کے آغاز پر صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عابد زبیری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 191 مطابق کورٹ کے پریکٹس اینڈ پروسیجر کو ریگولیٹ کرنے کے لیے سپریم کورٹ آئین اور قانون کے تابع رولز طے کر سکتی ہے۔ اس لیے میری عاجزانہ رائے ہے کہ کورٹ کے پریکٹس اینڈ پروسیجر رولز کو ریگولیٹ کرنے کا اختیار رکھنے والی واحد اتھارٹی پارلیمنٹ نہیں سپریم کورٹ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’قانون اور آئین کے تابع‘ کا یہ مطلب نہیں کہ پارلیمنٹ اس سلسلے میں قانون سازی کر سکتی ہے۔ اگر قواعد طے کرنے کے اختیار کو قانون سازی سے مشروط کر دیا جائے تو سپریم کورٹ کی قانون سازی کا اختیار ختم ہوجائے گا۔ قانون سازی کا آئینی اختیار ایک مستقل طاقت سمجھا جاتا ہے۔ لہٰذا اس پر کوئی پابندی نہیں ہوسکتی۔

تاہم چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ وکیل کے دلائل کے تحت آئین کے 6 الفاظ کو ’بےمعنی قرار دے کر‘ حذف کیا جا سکتا ہے۔ اگر میں آپ کے دلائل کو قبول کرلوں تو میں اسے اس طرح سمجھوں گا۔

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ آئین کہتا ہے کہ سپریم کورٹ اپنے پریکٹس اینڈ پروسیجر کے رولز بنانے کے لیے بااختیار ہے۔ اگر سپریم کورٹ آئین سے بالا رولز بناتی ہے تو کوئی تو یاد دلائے گا کہ آئین کے دائرے میں رہیں۔

عابد زبیری نے استدلال کیا کہ ’تابع‘ کا مطلب یہ ہے کہ یہ اختیار فطرتاً محدود ہے کیونکہ ایک آئینی اختیار، جو ایک مسلسل طاقت ہے۔ سپریم کورٹ کو دیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئین اگر قانون سازی کے لیے اختیار دے رہا تھا تو اس میں مخصوص الفاظ استعمال کیے گئے، انہوں نے آرٹیکل 154 (5) کا حوالہ دیا۔ جس میں کہا گیا کہ جب تک مجلس شوریٰ قانون کے ذریعے بندوبست نہیں کرتی۔ مشترکہ مفادات کونسل اپنے رولز آف پروسیجر بنا سکتی ہے۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا اس کے بعد کی پارلمینٹ قانون سازی کے ذریعے ان قوانین کو معطل کر سکتی ہے جو سپریم کورٹ نے قانونی اور آئینی طور پر وضع کیے ہوں؟

عابد زبیری نے جواب دیا کہ نہیں، وہ اس وجہ سے نہیں کر سکتی کیونکہ پھر یہ روایت بن جائے گی، مثلاً کیا اب سپریم کورٹ پارلیمنٹ کے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو اوور رائیڈ کرتے ہوئے اپنے پریکٹس اینڈ پروسیجر کو ریگولیٹ کرنے کے لیے کوئی قانون بنا سکتی ہے؟ یہ سلسلہ کہاں رکے گا؟

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ میرے سوال کا جواب دے دیں کہ اگر ’سبجیکٹ ٹو لا‘ کو نکال دیں تو رولز بنانے کے اختیار پر کیا فرق پڑے گا؟ وقت کم ہے جواب جلدی دیں۔

عابد زبیری نے جواب دیا کہ اگر آئین سے آئین و قانون کے مطابق رولز بنانے کے الفاظ ہٹا دیے جائیں تو بھی فرق نہیں پڑے گا۔اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بس ٹھیک ہے جواب آ گیا اگلے نکتے پر جائیں۔ آج کیس کی سماعت کا آخری دن ہے۔

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ آج ہم یہ کیس سن رہے ہیں اور ہمارے ادارے میں کیسز کا بوجھ بڑھ رہا ہے۔ آج اس کیس کو ختم کرنا ہے۔ اپنے دلائل کو 11 بجے تک ختم کریں۔ ہم میں سے جس کو جو رائے دینی ہے فیصلے میں لکھ دیں گے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نے تحریری دلائل جمع کرائے تھے؟ عابد زبیری نے جواب دیا کہ ابھی اپنا تحریری جواب جمع کرایا ہے۔

دوران سماعت عابد زبیری کی جانب سے عدالت میں کاغذات جمع کرانے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے پہلے سے تحریری دلائل جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔ اتنے سارے کاغذ ابھی پکڑا دیے۔ ہم نے کہا تھا کہ یہ پہلے دائر کردیں۔ کیا ایسے نظام عدل چلے گا؟ کیا دنیا میں ایسے ہوتا ہے؟ مغرب کی مثالیں آپ دیتے ہیں، کیا وہاں یہ ہوتا ہے؟ آپ جیسے سینئر وکیل سے ایسی توقع نہیں ہوتی۔ کیا آپ یہ کام پہلے نہیں کر سکتے تھے؟

دلائل کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے عابد زبیری نے کہا کہ آرٹیکل 175 نے پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار دیا ہے لیکن اسے آرٹیکل 142 (اے) اور انٹری 55 کے ساتھ پڑھنا ہوگا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ کیا آرٹیکل 191 دائرہ اختیار دیتا ہے یا یہ طاقت دیتا ہے؟ عابد زبیری نے جواب دیا کہ میں کہوں گا کہ یہ طاقت دیتا ہے۔پروویژن میں استعمال ہونے والا سب سے اہم لفظ ’ریگولیٹ‘ ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 191 دائرہ اختیار نہیں دیتا بلکہ یہ طاقت دیتا ہے۔ دائرہ اختیار اور طاقت میں فرق ہوتا ہے۔

عابد زبیری نے کہا کہ آرٹیکل 191 کے تحت استعمال کیا جانے والا اختیار ایک آئینی طاقت ہے جس نے سپریم کورٹ کو اپنے پریکٹس اینڈ پروسیجر کو ریگولیٹ کرنے کا اختیار دیا ہے۔ پارلیمنٹ اس سلسلے میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ ’تابع‘ کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک قابل عمل پروویژن نہیں ہے بلکہ یہ ایک پابندی والی پروویژن ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ آپ کے مطابق آرٹیکل 184/3 کا دائرہ اختیار نہ پارلیمنٹ بڑھا سکتی ہے اور نہ ہی سپریم کورٹ تو پھر ہم یہ کیس کیوں سن رہے ہیں؟ سپریم کورٹ خود مقدمات میں آرٹیکل 184/3 کا دائرہ بڑھائے تو ٹھیک پارلیمنٹ بڑھائے تو غلط ہے۔

چیف جسٹس نے عابد زبیری سے استفسار کیا کہ آپ نے عدالت کے سامنے کوئی درخواست جمع نہیں کرائی تھی۔قانون کے حوالے سے آپ کے اضطراب کی وجہ کیا ہے؟

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 184 (3) کے تحت استعمال ہونے والے دیگر اختیارات کیا قواعد میں درج تھے یا نہیں؟ آرٹیکل 191 میں یہ نہیں کہا گیا کہ چیف جسٹس رولز یا ہیومن رائٹس سیل بنا سکتے ہیں؟

انہوں نے ریمارکس دیے کہ اس سے پہلے کہ دنیا انگلی اٹھائے۔ میں خود پر انگلی اٹھاتا ہوں۔ آرٹیکل 184 (3) کے تحت ہزاروں مقدمات میں اختیارات استعمال کیے گئے۔ کچھ عوامی مفاد کے لیے تھے لیکن کچھ ذاتی مفاد کے لیے کیے گئے. آپ اس کی وضاحت نہیں کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 184 (3) کا استعمال پاکستان کی حقیقت ہے. یا تو دلیل دیں کہ اس کا صحیح استعمال ہوا یا پھر کہہ دیں کہ ایسا نہیں ہوا اور پھر اس کا کوئی حل بتائیں۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ اگر غلطی ہوئی ہے تو اس کا تدارک کس کی ذمہ داری ہے؟ سب سے بڑی ذمہ داری اس عدالت کی ہے، اس کے بعد شاید پارلیمنٹ. اگر ہم سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو ہمیں اس کی اصلاح کرنی چاہیے. پارلیمنٹ نے غلطی کی ہے تو اسے سدھارنا چاہیے. اگر ہم اپنی غلطی کو درست نہیں کریں گے تو کیا پارلیمنٹ کر سکتی ہے؟ پاکستان میں جو کچھ ہوا آپ اسے نظر انداز کر رہے ہیں۔ نیوجرسی نہ جائیں، پاکستان کی ہی مثال دے دیں۔ سپریم کورٹ غلطی کر دے تو کیا پارلیمنٹ اس کو درست کر سکتی ہے؟

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ عابد زبیری پی ٹی آئی کی نمائندگی نہیں کر رہے؟  جس پر عابد زبیری نے کہا کہ ایسا نہیں ہے بلکہ وہ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے پیش ہوئے ہیں۔

اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ تو ہمیں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا مؤقف بتائیں. جس طریقے سے آرٹیکل 184 (3) کا استعمال کیا جا رہا ہے، کیا یہ درست ہے؟ اگر ہم اس قانون کو ختم کرتے ہیں یا اگر میں پہلے کی طرح آرٹیکل 184 (3) کا استعمال کرتا رہوں تو کیا یہ درست ہوگا؟

عابد زبیری نے کہا کہ آرٹیکل 184 (3) کا ماضی میں غلط استعمال کیا گیا تھا اور اس پر کئی سوالات اٹھائے گئے تھے.اس کا غلط استعمال ہوا ہو یا غلط، اس بات کا جائزہ لینا ہوگا کہ اسے درست کرنے کی اہلیت یا دائرہ اختیار کس کے پاس ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ کے پاس ویسے بھی اختیار ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار کو بڑھا یا کم کر سکتا ہے۔کیا پارلیمنٹ بنیادی حقوق سے متعلق قانون سازی نہیں کر سکتا؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ اس کیس میں اچھے برے یا صحیح غلط کا سوال نہیں۔ اختیار کا سوال ہے۔ یہ بتائیں کہ قانون جتنا بھی اچھا ہو، سپریم کورٹ کے رولز بنانے کا اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہے یا نہیں؟

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ اگر انصاف تک رسائی کے حق کی سپریم کورٹ خلاف ورزی کر رہی ہو تو کیا پارلیمنٹ مداخلت نہیں کر سکتی؟ آپ اس کیس کے قابل سماعت ہونے پر دلیل نہیں سے سکے۔ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر سے زیادہ بڑا مسئلہ جبری گمشدگیوں کا ہے، اگر چیف جسٹس یہ کیس پہلے مقرر کر رہے ہیں اور جبری گمشدگیوں سے متعلق نہیں تو پارلیمنٹ قانون سازی نہیں کر سکتی؟

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ماضی میں آرٹیکل 184 (3) کا استعمال صحیح ہوا یا غلط؟ میرے سوال کا جواب دیں کہ بطور سپریم کورٹ بار آپ کی کیا رائے ہے؟ اگر مگر نہیں سیدھا جواب دیں۔ عابد زبیری نے جواب دیا کہ آرٹیکل 184 (3) کا غلط استعمال ہوا اور اس کے خلاف اپیل ہونی چاہیے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پاکستان میں 184 (3) کا استعمال کیسے ہوا؟ کیا ہیومن رائٹس سیل کا تذکرہ آئین یا سپریم کورٹ رولز میں ہے؟ آرٹیکل 184 (3) سے متعلق ماضی کیا رہا؟ یا تو کہہ دیتے کہ 184 (3) میں ہیومن رائٹس سیل بن سکتا تھا۔اس بات پر تو آپ آنکھیں بند کر کے بیٹھ گئے ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے کون سے بنیادی حقوق متاثر ہوئے یہ بتا دیں، عابد زبیری نے کہا کہ سپریم کورٹ میں اپیل کا حق صرف آرٹیکل 185 کے تحت ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس مقدمے کو بھی ہم آرٹیکل 184 (3) کے تحت سن رہے ہیں، آپ کے مطابق آرٹیکل 184 تھری کا دائرہ اختیار نہ پارلیمنٹ بڑھا سکتا ہے نہ سپریم کورٹ، پھر ہم یہ کیس کیوں سن رہے ہیں؟ سپریم کورٹ خود مقدمات میں آرٹیکل 184 (3) کا دائرہ بڑھائے تو ٹھیک، پارلیمنٹ بڑھائے تو غلط ہے۔

انہوں نے استفسار کیا کہ اگر انکم ٹیکس آرڈیننس یا فیملی رائٹس میں ترمیم ہو تو کیا براہ راست سپریم کورٹ میں درخواست آسکتی ہے؟ عابد زبیری نے جواب دیا کہ جی بالکل آسکتی ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کا جواب نوٹ کر رہا ہوں کہ بنیادی حقوق کے علاوہ بھی قانون سازی براہ راست سپریم کورٹ میں چیلنج ہو سکتی ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے کون سے بنیادی حقوق متاثر ہوئے یہ بتا دیں، عابد زبیری نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ میں اپیل کا حق صرف آرٹیکل 185 کے تحت ہے، آئین کے اصل دائرہ اختیار 184 تھری میں اپیل کا حق نہیں دیا گیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس کی جوابی دلیل میں یہ دے سکتا ہوں کہ آرٹیکل 184 تھری کا استعمال کیسے ہوا، کسی سیاسی جماعت پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ ہو جائے تو کیا اس کے خلاف اپیل نہیں ہونی چاہیے، اگر کوئی مریض کہیں مر رہا ہو اور کوئی میڈیکل کی ذرا سی سمجھ رکھتا ہو تو وہ اس لیے مرنے دے کہ وہ ڈاکٹر نہیں ہے؟ پارلیمنٹ نے اچھی نیت سے قانون سازی کی۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ اگر پارلیمنٹ کے لیے دروازہ کھول دیتے ہیں کہ وہ سپریم کورٹ کے ہر معاملے میں مداخلت کرے گی، ایک بار دروازہ کھل گیا تو اس کا کوئی سرا نہیں ہو گا، قانون سازی اچھی یا بری بھی ہو سکتی ہے، یہ نہیں ہو سکتا کہ قانون سازی درست ہے تو ٹھیک ہے یا ورنہ اس کو کالعدم قرار دے دیں، آئین اس طرح سے نہیں چل سکتا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ماضی کو دیکھیں، ایک شخص آتا ہے اور پارلیمنٹ کو ربر اسٹیمپ کر دیتا ہے، امریکا میں یہ سب نہیں ہوتا، ہمارا ماضی بہت بوسیدہ ہے۔

انہوں نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ بار خود تو درخواست لے کر نہیں آئی، عابد زبیری نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ بار نے جو درخواستیں کیں وہ تو مقرر نہیں ہو رہیں، اس پر چیف جسڑس نے ریمارکس دیے کہ اگر آپ اس کیس کو ختم کریں تو باقی مقرر ہوں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ ایکٹ میں آئین کی کون سے شق کا حوالہ دیا گیا ہے؟ ایسے تو سادہ اکثریت سے قانون سازی کا دروازہ کھولا جا رہا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آئین میں سادہ اکثریت سے بالواسطہ ترمیم کر کے دروازہ کھولا جا رہا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کل کی باتیں نہ کریں آج کی صورتحال بتائیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 184 تھری کے اختیار کو آئین میں رہ کر استعمال کیا گیا ہوتا تو ایسی قانون سازی نہ ہوتی، آپ مدعی نہیں ہیں، نہ مدعا علیہ ہیں، توپھر اس ایکٹ کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں؟

جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 184 تھری میں اپیل سے اصل دائرہ اختیار کے کیس کی دوبارہ سماعت کا حق کیسے دے دیا گیا؟

دریں اثنا عدالت نے کیس کی سماعت میں 11 بجے تک وقفہ کردیا، وقفے کے بعد کیس کی سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ کو تو کہتے ہیں نمبر گیم پوری ہونی چاہیے لیکن فرد واحد آ کر آئینی ترمیم کرے تو وہ ٹھیک ہے، پارلیمنٹ کچھ اچھا کرنا چاہتی ہے تواس کو کچلنا کیوں چاہتے ہیں؟

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار بڑھانے سے متعلق دلائل دیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم بھی مانتے ہیں کہ صوبائی اسمبلیوں کو ایسی قانون سازی کا اختیار نہیں ہے، بس اب دلائل ختم کریں، یہ تاثر مت دیں کہ آپ یہ کیس ختم کرنا نہیں چاہتے، اگر کسی نے 188 کے تحت نظر ثانی ایک بار دائر کر دی تو وہ اپیل نہیں کر سکتا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ایکٹ کے تحت نظر ثانی کے خلاف تو اپیل کا حق نہیں دیا گیا۔

چیف جسٹس نے عابد زبیری سے استفسار کیا کہ بوجھ سپریم کورٹ پر پڑے گا تو گھبراہٹ آپ کو کیوں ہو رہی ہے؟ آپ کے دلائل مکمل ہو گئے، اب اگلے فریق کو 20 منٹ سنیں گے۔

دریں اثنا درخواست گزار عمر صادق کے وکیل عدنان خان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کو ایکٹ کے ذریعے سپریم کورٹ کے رولز بنانے کا اختیار حاصل نہیں، آئین سازوں نے دانستہ طور پر پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے ضابطوں میں رد و بدل کا اختیار نہیں دیا۔

عدنان خان نے مزید کہا کہ چیف جسٹس کے آفس کو پارلیمنٹ نے بےکار کر دیا، سپریم کورٹ دو بنیادوں پر کھڑا ہے، ایک چیف جسٹس اور دوسرا باقی ججز۔

اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ایسے تو فل کورٹ بلانے کی کیا ضرورت ہے، صرف چیف جسٹس کیس سن لیتے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ چیف جسٹس کو جہاں اختیارات دیے گئے وہ آئین میں درج ہیں، چیف جسٹس کو سپریم کورٹ کے سوا کہاں تنہا اختیارات دیے گئے؟

عدنان خان نے کہا کہ آئین کہتا ہے چیف جسٹس خود بغیر کسی مشاورت کے بینچز بنا سکتا ہے، چیف جسٹس اور دیگر ججز میں فرق انتظامی اختیارات ہیں، ایکٹ میں فوری مقرر ہونے والے مقدمات کا طریقہ کار دے کر سپریم کورٹ کی تضحیک کی گئی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم پہلے بھی کیس مقرر کرنے کے لیے اپنا دماغ استعمال کیا کرتے تھے، میں نے تو پہلے ہی کیس منیجمنٹ کمیٹی کو کیسز کے تقرر کا اختیار دیا ہے، کیا میں نے کیس منیجمنٹ کمیٹی بنا کر آئینی خلاف ورزی کی؟

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ پشاور ہائی کورٹ کے حراستی مراکز سے متعلق فیصلے کے خلاف اپیل 4 سال سے سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے، اہم کیسز کے مقرر نا ہونے پر قانون سازی کیوں نہیں ہو سکتی؟

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر میں حراستی مراکز سے متعلق کیس مقرر نہیں کرتا تو آپ کے پاس کیا حل ہو گا؟

عدنان خان نے کہا کہ مشاورت اچھی چیز ہے اور چیف جسٹس اپنے ساتھیوں میں سے کسی سے بھی مشاورت کر سکتے ہیں، اس قانون میں کہیں مشاورت کا درج نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کوئی ایسا قانون یا شرعی قانون ہے کہ اپیل کا کوئی حق نہیں ہے؟ قانون یا شرع کی رو میں کہاں درج ہے کہ قاضی کا فیصلہ آخری ہو گا؟ کوئی حوالہ دے دیجئے۔

اس موقع پر عدنان خان نے عدالت کو ریفرنس جمع کرانے کی یقین دہانی کراتے ہوئے اپنے دلائل مکمل کرلیے، جس کے بعد درخواست گزار محمد شاہد رانا ایڈووکیٹ نے اپنے دلائل کا آغاز کردیا۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلا لیا تو وکیل امتیاز صدیقی نے دلائل کے لیے وقت نہ دینے پر اعتراض اٹھادیا، اس پر چیف جسٹس اور وکیل امتیاز صدیقی کے درمیان تلخ کلامی ہوگئی۔

امتیاز صدیقی نے کہا کہ آپ نے کہا تھا کہ پہلے ہمیں سنیں گے پھر اٹارنی جنرل کو سنیں گے، ہمیں نہ سننا ناانصافی ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کہاں لکھا ہے حکمنامے میں کہ آپ کو ابھی سننا ہے؟ امتیاز صدیقی نے جواب دیا کہ آپ ہمارے ساتھ اپنا سلوک دیکھیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کوئی بات کرنے کی تمیز بھی ہوتی ہے، پچھلی سماعت کا تمام ججز کے دستخط کے ساتھ حکمنامہ جاری ہوا تھا، حکمنامہ میں درج ہے کہ امتیاز صدیقی کے دلائل مکمل ہو چکے اور وہ مزید دلائل دینا نہیں چاہتے۔

امتیاز صدیقی نے کہا کہ میرے ساتھی خواجہ طارق رحیم آپ کے رویے کی وجہ سے آج عدالت نہیں آئے، خواجہ طارق رحیم نے آپ کو پیغام پہنچانے کا کہا ہے۔

چیف جسٹس نے انہیں متنبہ کیا کہ آپ اپنی نشست پر بیٹھ جائیے ورنہ میں کچھ ایشو کروں، دریں اثنا وکیل امتیاز صدیقی واپس نشست پر براجمان ہوگئے۔

شاہد رانا نے دلائل دیتے ہوئے کہا اگر 15 ججز فیصلہ کریں گے تو اپیل کس کے پاس جائے گی؟ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 15 ججز فیصلہ کریں گے تو نہیں ہو گی اپیل یہاں اللہ کے پاس جائے گی۔

شاہد رانا نے کہا کہ ہائی کورٹ میں فیصلہ دینے والے جج سے انٹراکورٹ اپیل میں مختلف ججز کیس سنتے ہیں، سپریم کورٹ میں اپیلیں آرٹیکل 185 کے تحت ہوتی ہیں، آرٹیکل 185 کے تحت اپیل اب آرٹیکل 184 میں تو نہیں ہو سکتی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم آپ کو اس بات کا جواب فیصلے میں دے دیں گے، یہ معاملہ پہلے کبھی کیوں نہیں اٹھایا گیا؟ کیا پتا سپریم کورٹ نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہو، سپریم کورٹ اپنے اختیارات سے تجاوز کرے تو قانون سازی سے اس کو درست نہیں کیا جا سکتا۔

انہوں نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ یہاں بار کے انتخابات جیتنا مشکل ہے وہاں دو تہائی اکثریت کے لیے نمبرز پورے کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے، سپریم کورٹ کے آرٹیکل 184 (3)کے دائرہ کار میں کیے گئے تمام فیصلے درست ہیں؟

شاہد رانا نے کہا کہ سپریم کورٹ کو آرٹیکل 184 (3) کے تحت مفاد عامہ کے کیسز سننے چاہیے، مفاد خاصہ کے نہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میرا قلم ہوا میں رہ جاتا ہے، آپ پہلے اپنا پوائنٹ پورا کر دیں۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ آپ فل کورٹ کو اپنی رائے بتا دیں۔

اس دوران وکیل زاہد ابراہیم نے کہا کہ یہ کیس خود تسلیم کر رہا ہے کہ پارلیمنٹ قانون سازی کر سکتی ہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ کیسے ممکن ہے کہ ’سبجیکٹ ٹو لا‘ لکھ کر پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے رولز پر قانون سازی کا اختیار دے دیا گیا ہو؟ آرٹیکل 188 اور آرٹیکل 191 میں فرق ہے۔

دریں اثنا سپریم کورٹ نے سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کردیا، وقفے کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو پاکستان مسلم لیگ (ق) کے وکیل زاہد ابراہیم نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 142 قانون سازی کے اختیارات دیتا ہے، ایکٹ کے ذریعے سپریم کورٹ کے اختیار کو بڑھایا گیا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ بڑھایا اسی چیز کو جاتا ہے جو پہلے سے موجود ہو، اپیل کا حق 184 (3) میں تو موجود ہی نہیں تھا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پارلیمنٹ آئینی ترمیم سے یہی کر دے تو کیا یہ عدالت پھر بھی اس کا جائزہ نہیں لے سکتی؟ یا تو یہ کہیں کہ پارلیمنٹ سرے سے ایسا کر ہی نہیں سکتی، پارلیمنٹ آئینی ترمیم سے 184 (3) کو ختم ہی کر دے تو نئی بحث چھڑ جائے گی، میں صرف ججز کے سوالات سن رہا ہوں کچھ لکھ نہیں رہا، پہلے اپنے دلائل تو پیش کریں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ قانون سازی کے اختیار کے تحت آرٹیکل 191 کہتا ہے کہ سپریم کورٹ رولز قانون سے بدلے جا سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے وکیل زاہد ابراہیم سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ضروری نہیں کہ آپ سب کے دلائل سے متفق ہوں۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ بینچ میں بیٹھے جج کو حق حاصل ہے کہ وہ سوال کرے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ کو موجودہ قانون کا دائرہ بڑھانے کا اختیار ہے، اپیل کا حق دے کر قانون کا دائرہ بڑھایا کیسے گیا؟ قانون سازی کے ذریعے سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں کچھ شامل کیسے کیا جا سکتا ہے؟

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ دائرہ اختیار کو بڑھانے کو آرٹیکل 175 شق 4 کے ساتھ ملا کر پڑھا جا سکتا ہے یا نہیں؟

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ بار بار آپ کہہ رہے ہیں سپریم کورٹ کے پاس شروع سے رولز سے متعلق قانون سازی کا اختیار تھا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ اپیل تو ایک ضابطے کا معاملہ ہے یا کسی کا بنیادی حق ہے؟ وکیل زاہد ابراہیم نے جواب دیا کہ اپیل بنیادی حق ہے، اسلام بھی پابند کرتا ہے کہ اپیل کا حق ملنا چاہیے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ماضی میں کئی بار وکلا نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے آرٹیکل 184 (3) کے اختیار کا غلط استعمال کیا۔

جسٹس شاہد وحید نے استفسار کیا کہ کیا دائرہ اختیار کو ایکٹ آف پارلیمنٹ سے بڑھایا جا سکتا ہے یا اس کے لیے آئینی ترمیم درکار ہے؟ کیا آئین کی دیگر شقوں کو آئینی ترمیم کے بغیر بدلا جا سکتا ہے؟ جس طریقہ کار سے آئین میں ترمیم ہو سکتی ہے اسی طرح کریں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آئین کے مطابق پارلیمان سپریم کورٹ کے اختیارات بڑھا سکتی ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ہم بڑھانے کے لفظ کو پابندی کے لیے استعمال کریں گے؟

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ جب بھی مرضی ہوگی قانون بنائیں گے، کیا یہ آپ کی دلیل ہے؟

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ زاہد صاحب برائے مہربانی اپنے دلائل تو بتائیں پہلے؟ جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ اس قانون کے بعد ماسٹر آف روسٹر کون ہے؟ وکیل زاہد ابراہیم نے جواب دیا کہ کمیٹی فیصلہ کرے گی۔

جسٹس منیب اختر نے استسفار کیا کہ کمیٹی نے پارلیمان ماسٹر آف روسٹر ہو گی، نکتہ یہ ہے کہ موجودہ کیس سمیت کسی بھی صورتحال میں پارلیمان ماسٹر آف روسٹر بن جائے گی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ماسٹر آف روسٹر کا لفظ کہاں لکھا ہوا ہے؟ رولز میں چیف جسٹس کے بینچ مقرر کرنے کا ہے، مقدمات کا مقرر کرنے چیف جسٹس نے رجسڑار کا اختیار ہے، ماسٹر آف روسٹر کا لفظ کس قانون میں ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ دنیا میں اب کہیں بھی ماسٹر آف روسٹر کا لفظ نہیں، اگر ایک شخص کے پاس بینچز کی تشکیل کا اختیار ہے تو اس سے کیس کا نتیجہ متاثر کر سکتا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ اگر ایک شخص نتائج پر اثر انداز ہو سکتا ہے تو 3 بھی ہو سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ پیغام اس عدالت سے نہیں جانا چاہیے کہ آئین و قانون کا انحصار چیف جسٹس کی خواہشات پر ہے، آئین اور قانون چیف جسٹس کی خواہشات پر منحصر نہیں، یہ عدلیہ کیا آزادی اور قانون کے منافی ہے، میں ماسٹر نہیں آئین کے ماتحت ہوں۔

دریں اثنا مسلم لیگ (ق) کے وکیل زاہد ابراہیم کے دلائل مکمل ہوگئے جس کے بعد مسلم لیگ (ن) کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے دلائل کا آغاز کیا۔

وکیل صلاح الدین کی جانب سے جسٹس ر آصف سعید کھوسہ کے آرٹیکل کا حوالہ دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ بینچ کے 10 ممبران بھی چیف جسٹس کے اختیارات پر آواز اٹھا چکے ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا اس کا یہ مطلب ہے پارلیمنٹ کو اختیار مل گیا؟ کیا پارلیمنٹ ماسٹر آف روسٹر ہے اس نکتے پر آئیں، کس کی کیا رائے ہے وہ الگ بات ہے۔ جسٹس مظاہر نے کہا کہ صلاح الدین آپ اس نکتے پر آئیں جو ہمارے سامنے ہے۔ آپ جو دلائل دے رہے ہیں وہ کیا شخصیات کی حد تک ہیں؟

وکیل صلاح الدین نے بتایا کہ چیف جسٹس کے اختیارات کے حوالے سے سپریم کورٹ کے ججز کے حوالے سے بہت آراء آئی ہیں۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نے کہا کہ آپ اپنے دلائل شخصیت کو مدنظر رکھ کر دے رہے ہیں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ جو آراء دی گئی وہ ان کی آراء ہوں گی، کسی کا ایک موقف ہوتا ہے دوسرے کا دوسرا موقف، بہتر ہوگا کہ پارلیمان کے اختیار پر دلائل دیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ میں آپ کو سننا چاہتا ہوں اپنے دلائل دیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیس میں پارلیمان کے اختیار اور ایکٹ کے آئین سے متصادم ہونا یا نہ ہونا ہے۔

وکیل صلاح الدین نے کہا کہ بینچز کی تشکیل اور مقدمات کا مقرر کرنا آئینی اختیار نہیں، بینچ تشکیل کرنے کی پاور کوئی آئینی پاور نہیں ہے۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ آپ نے 1861 کا انڈیا ایکٹ دیکھا؟ بیرسٹر صلاح الدین نے جواب دیا کہ نو سر۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ میں آپ کو بتاتا ہوں اس پاور کا آغاز وہیں سے ہوتا ہے، برطانوی راج کا آغاز ہونے کے بعد 1861 میں پہلا قانون بنایا گیا، آئینی تاریخ دیکھیں تو ماسٹر آف روسٹر کے معاملے میں مداخلت پر واٹر مارک ہے۔

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ احترام کے ساتھ آئینی تاریخ پر میں الگ موقف لوں گا، 1962 کے بعد چیف جسٹس کے اختیارات کو کم اور سپریم کورٹ کا اختیار بڑھانے کا آغاز ہوا، اگر آئین سازوں نے ایک اختیار ختم کیا تو اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سوال ہے کہ ماسٹر آف روسٹر کون ہوگا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ دنیا بھر میں ماسٹرز کا دور ختم ہو چکا اور اب ہمیں جاگ جانا چاہیے۔ امریکا، برازیل سمیت کئی ممالک میں عدلیہ باہمی مشاورت سے اپنے امور چلاتی ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ یہاں ماسٹرز آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں، کوئی بھی صدا ماسٹر نہیں رہتا۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ آئندہ سال اکتوبر میں ایک اور چیف جسٹس نے چلے جانا ہے، سوال یہ ہے کہ جن لوگوں کا نقصان ہوا ہم انہیں کیا جواب دیں گے، آئین اور قانون چیف جسٹس پاکستان کی خواہشات کے تابع نہیں ہیں، اگر ایسا ہوا تو یہ آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کے لیے تباہ کن ہوگا، ہم ماسٹرز نہیں بلکہ آئین اور عوام کے نوکر ہیں، چیف جسٹس پاکستان کو آئین و قانون سے آگے نہیں بڑھنا چاہیے۔

وکیل ن لیگ صلاح الدین نے کہا کہ متعدد چیف جسٹس اور ججز آرٹیکل 184 کی شق تین کے استعمال پر تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا اس بنیاد پر پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار دیا جاسکتا ہے۔

وکیل ن لیگ نے کہا کہ پاکستان بار کونسل 10 سال سے چیف جسٹس پاکستان کے اختیارات ریگولیٹ کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے، بینچ بنانے اور مقدمات سماعت کے لیے مقرر کا اختیار چیف جسٹس کو حاصل ہونا آئین میں نہیں لکھا، ساٹھ کی دہائی سے چیف جسٹس کے ماسٹر آف روسٹر کے اختیار کو کم کرکے سپریم کورٹ کے اختیارات کو بڑھایا جاتا رہا۔ جنوری 2018 میں بھارتی سپریم کورٹ کے چار ججز نے اپنے ہی چیف جسٹس کے خلاف پریس کانفرنس کی۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ ہم 1947میں آزاد ہو چکے ہیں، دیکھتے ہیں بھارتی سپریم کورٹ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کرنے کے خلاف کیس پر کیا فیصلہ دیتی ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ یہ ایکٹ سپریم کورٹ کو ڈکٹیشن دے رہا ہے، ایکٹ کہتا ہے اتنے رکنی کمیٹی ہو اتنا رکنی بینچ بنائے، سپریم کورٹ کو ڈکٹیٹ کرنا کہ بزنس کیسے چلاو یہ عدلیہ میں مداخلت نہیں تو کیا ہے؟

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس میں کہا کہ کیا پارلیمنٹ قانون سازی کی مجاز ہے یا نہیں؟ اگر پارلیمنٹ مجاز ہے تو پھر اسے ڈکٹیشن نہ کہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایکٹ کے ذریعے چیف جسٹس کے ساتھ دو کو پائلٹ ہی لگائے گئے، ہم اپنے سائے اور کو پائلٹس سے گھبراتے کیوں ہیں؟ سوال یہی ہے پارلیمنٹ اس قانون سازی کی مجاز ہے یا نہیں، بینچوں سے متعلق جو شکایات اور مسائل سپریم کورٹ میں ہیں وہ ہائیکورٹس میں نہیں دیکھے، کیا یہ کہا جائے ہائیکورٹس سپریم کورٹ سے بہتر چل رہی ہیں۔

بیرسٹر صلاح الدین نے دلائل میں کہا کہ یہ ہائیکورٹ ٹو ہائیکورٹ اور چیف جسٹس ٹو چیف جسٹس دیکھا جا سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ یہ نہیں کہا جا سکتا پارلیمنٹ نے بدنیتی سے یہ کر دیا آوازیں تو وکلا اٹھا رہے تھے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ اگر سابق چیف جسٹس صاحبان کے خلاف باتیں یہاں اٹھائی جائیں مجھے شدید تحفظات ہیں، جو یہاں اپنا دفاع کرنے کے لیے موجود نہیں ان کا معاملہ نہ اٹھایا جائے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ پہلے پارلیمنٹ کے اختیار قانون سازی پر بات کریں، جس پر بیرسٹر صلاح الدین نے جواب دیا کہ آرٹیکل 191 قانون سازی کو قبول کرتا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے ن لیگ کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ پہلے لوگ دوسروں کے دلائل اپنایا کرتے تھے لیکن اب ویسا نہیں ہو رہا۔ بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ براہ راست کارروائی نشر ہو رہی ہے اس لیے ایسا نہیں ہو رہا۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کیوں نہ عدالتی کارروائی کی براہ راست نشریات دکھانا روک دیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ مجھے قانون سازی پر بہت زیادہ تحفظات ہیں، پارلیمنٹ کو ماسٹر آف دی روسٹر بنانا عدلیہ کی خودمختاری کے خلاف ہے، جس پر وکیل ن لیگ نے کہا کہ پارلیمنٹ کی قانون سازی سے عدلیہ کی خودمختاری کو مزید تقویت ملی ہے۔