جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس: صدر نے سمری بھیجنے سے پہلے دماغ استعمال نہیں کیا،ریفرنس کالعدم قرار : اختلافی نوٹ

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس: صدر نے سمری بھیجنے سے پہلے دماغ استعمال نہیں کیا،ریفرنس کالعدم قرار : اختلافی نوٹ
سپریم کورٹ کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے خارج کردیا تھا۔ تاہم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کے فیصلے کے اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ پر لگائےگئے الزامات بے بنیاد اور بدنیتی پر مبنی ہیں، موجودہ حکومت نے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کو عہدے سے ہٹانے کیلئے ریفرنس دائر کیا اور انہیں غیر قانونی طریقے سے عہدے سے ہٹانے کی کوشش کی گئی۔

کیس کے فیصلے میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس مقبول باقر نے اختلافی نوٹ بھی لکھے ۔ جسٹس منصور علی شاہ کا اختلافی نوٹ 65 صفحات جبکہ جسٹس مقبول باقر کا اختلافی نوٹ 68 صفحات پر مشتمل ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے اختلافی نوٹ ہے میں لکھا گیا ہےکہ شکایت کنندہ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی اہلیہ کا اسپینش نام معلوم ہونا حیران کن ہے، انہوں نے لکھا کہ شکایت کنندہ وحیدڈوگرکا لندن جائیدادوں تک رسائی حاصل کرنا حیران کن ہے، شہزاد اکبر نے نہیں بتایا کہ وحید ڈوگر کو اس سب کا کیسے معلوم ہوا جبکہ وفاقی حکومت کا مؤقف ہے شکایت کنندہ صحافی  ہے اور صحافی کو اس کا سورس بتانے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا تاہم وفاق کا یہ مؤقف درست نہیں۔ انہوں نے مزید لکھا کہ کہ شکایت کنندہ کو شکایت کیلئے معلومات ’فیڈ‘ کی گئیں اور شکایت کنندہ وحید ڈوگر نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ یا خبر کسی اخبار میں شائع نہیں کی جبکہ وحید ڈوگر نے جج کے خلاف ایکشن کے لیے شکایت کا اندراج کرایا لہذا وحید ڈوگر کا اسٹیٹس ایک شکایت کنندہ کا تھا، ایک صحافی کا نہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے اختلافی نوٹ میں مزید لکھا کہ جس نے بھی وحید ڈوگر کو یہ معلومات فیڈ کیں وہ کہانی کا اصل کردار ہے۔ شہزاد اکبر اور اثاثہ جات ریکوری یونٹ کی ٹیم کے خلاف فوجداری کارروائی کی جائے جبکہ نادرا اور ایف بی آر حکام کے خلاف غیرقانونی طورپر معلومات دینے پر بھی کارروائی کی جائے۔ 

اختلافی نوٹ میں مزید یہ کہا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی نجی معلومات لیک کرنے کا معاملہ چیف جسٹس کے سامنے پیش کیا جائے۔ اپنے اختلافی نوٹ میں ریفرنس کو بدنیتی قرار دیتے ہوئے کہا کہ صدرمملکت کو ریفرنس کو منظور کرکے آگے بھیجنے کا اختیار نہیں تھا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ صدرمملکت نے سمری بھیجنے سے پہلے دماغ استعمال نہیں کیا۔ انہیں ایف بی آر کو تحقیقات کی ہدایات دینے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ کونسل کسی بھی جج کے معاملے پر ازخود نوٹس لینے میں آزاد ہے جب کہ اداروں کو اختیارات نا ہونے پر سپریم کورٹ اپنے حکم سے اختیارات نہیں دے سکتی۔ انہوں نے لکھا کہ ایف بی آرکو آرٹیکل 209 کے تحت صدرتک رسائی کا اختیار نہیں، وفاقی حکومت یا اس کے ماتحت ادارے جج کے کنڈکٹ پرکونسل کو شکایت نہیں کرسکتے۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس عیسیٰ کے خاندان کو بھی دیگر شہریوں کی طرح آزادی اور تحفظ حاصل ہے لیکن ان اہلیہ اور بچوں کو بلا کر نا تو سنا گیا اور نا ہی کیس میں فریق بنایا گیا۔ انہوں نےکہا کہ شکایت کنندہ کی شکایت کو پزیرائی دینے کے تمام اقدامات کالعدم قرار دیے جاتے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں عدالتی بینچ کے ایک اور رکن جسٹس مقبول باقر کے اختلافی  میں لکھا گیا کہ ریفرنس کالعدم ہونے پر جائیدادیں اورٹیکس معاملات عوامی مفاد کے زمرے میں نہیں آتے، ایف بی آرقوانین کے مطابق 2004 تا 2013خریدی گئی جائیدادوں کےذرائع آمدن کی تحقیقات نہیں ہوسکتیں۔

دونوں ججز کی جانب سے اختلافی نوٹ میں جسٹس قاضی فائزعیسیٰ پر لگائےگئے الزامات کو بے بنیاد اور بدنیتی پر مبنی قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ موجودہ حکومت نے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کو عہدے سے ہٹانے کیلئے ریفرنس دائر کیا اور انہیں غیر قانونی طریقے سے عہدے سے ہٹانے کی کوشش کی گئی۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے خارج کردیا تھا۔