پیاروں سے متعلق جذبات کا اظہار سوشل میڈیائی دنیا تک محدود نہ رکھیں

دور حاضر میں ہم سوشل میڈیا کی تیز رفتار دنیا میں رشتوں کو مخصوص دنوں پر منانے کے جھنجھٹ میں پھنس کر رہ گئے ہیں تاہم یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ پوسٹس اور ہیش ٹیگز کے درمیان ضروری ہے کہ حقیقی بانڈز کو پروان چڑھایا جائے۔ سوشل میڈیا کی سطحی نمائشوں سے آگے بڑھنا اور بامعنی حقیقی زندگی کے رابطوں کو فعال کرنا رشتوں کا لازمی جزو ہے۔

پیاروں سے متعلق جذبات کا اظہار سوشل میڈیائی دنیا تک محدود نہ رکھیں

کچھ دن پہلے پوری دنیا میں استاد کے تقدس کا عالمی دن منایا گیا جس میں دنیا بھر میں طالب علموں نے اپنے اساتذہ کو مبارکبادیں دیں کہ اُن کی وجہ سے وہ آج اس مقام پر پہنچ گئے جس میں اُن کا اپنا کوئی کردار نہیں ہے بلکہ سب اُن کے اساتذہ کے مرہون منت ہے اور میں ہزار فی صد اس کے ساتھ متفق ہوں۔ اگر استاد اور سیکھنے کا عمل نہ ہوتا تو دنیا جانوروں کی آماجگاہ ہوتی اور یہاں انسانوں کے بجائے حیوان رہتے۔ ہر شعبہ اور ہر فیلڈ میں کسی کا کوئی نہ کوئی استاد موجود ہے جس کی وجہ سے اس کی عزت ہے اور مقام ہے اور اسے پیسے مل رہے ہیں۔ استادوں کے اپنے استاد ہیں اور اُن استادوں کے اپنے استاد ہیں جن کی وجہ سے انہوں نے یہ مقام حاصل کیا ہے اور یہ سلسلہ پھر انسان کے کرہ ارض پر آنے تک چلا جاتا ہے۔

ہمارا موضوع ٹیچر کی عظمت نہیں کیونکہ اساتذہ کی عظمت کے آگے میرے الفاظ ہیچ ہیں۔ بات ہم یہاں ایک اور موضوع پر کرنا چاہ رہے تھے کہ ہم سب نے آج کے ڈیجیٹل دور میں، کیلنڈر کو رشتوں کے لیے وقف کردہ دنوں سے مزین کر دیا ہے۔ ٹیچرز ڈے سے مدرز ڈے تک، سسٹرز ڈے سے برادرز ڈے تک، اور بلاشبہ، عالمی سطح پر منائے جانے والے ویلنٹائن ڈے اور فادرز ڈے، یہ مواقع اکثر ہمارے سوشل میڈیا فیڈز کو دلی پیغامات، رنگین تصاویر اور محبت کے اظہار سے بھر دیتے ہیں۔ تاہم، یہ سوچنا ضروری ہے کہ آیا یہ تقریبات سوشل میڈیا پر محض ایک چہرہ ہیں یا ہماری زندگیوں میں بھی ان کی کوئی اہمیت ہے۔

اگر دیکھا جائے تو پوری دنیا کی طرح پاکستان نے بھی ڈیجیٹل دور کو کھلے دل سے قبول کیا ہے۔ سوشل میڈیا کا اثر ناقابل تردید ہے، کیونکہ یہ لوگوں کو اپنے تجربات اور جذبات کو شیئر کرنے کا پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے۔ اگرچہ اس کی خوبیاں ہیں، لیکن اس نے ایک متجسس تضاد کو جنم دیا ہے۔ ایک طرف، ہم ان مقررہ دنوں پر پیار اور تعریف کا زبردست مظاہرہ دیکھتے ہیں، لوگوں کے ساتھ سب سے زیادہ دل کو چھو لینے والے پیغامات اور تصاویر پوسٹ کرنے کا مقابلہ کرتے ہیں۔ دوسری طرف، یہ اکثر ظاہر ہوتا ہے کہ محبت اور احترام کے یہ اعلانات ڈیجیٹل دائرے تک ہی محدود ہیں، حقیقی زندگی میں شاذ و نادر ہی ٹھوس اعمال یا دلی گفتگو میں ترجمہ ہوتے ہیں۔

چند روز قبل پوری دنیا میں منایا جانے والا یوم اساتذہ اس کی تازہ ترین مثال ہے جس کا اندازہ مجھے خود بے تحاشا پیغامات کی موصولی کے نتیجے میں ہوا جس میں میرے ایسے شاگرد بھی شامل تھے جن سے عرصہ ہوا رابطہ نہیں ہو پایا۔ کیونکہ 16 سال سے شعبہ ٹیچنگ سے وابستگی کچھ کم نہیں ہوتی۔ اسی طرح سب اساتذہ کو اس دن ان کے شاگردوں نے یاد کیا جو کہ موجودہ دور میں رشتوں کو یاد رکھنے کے رجحان کی ایک بہترین مثال ہے۔ اس دن، طلبہ اور سابق طلبہ نے سوشل میڈیا پر اپنے اساتذہ کی تعریف کی اوران کے ساتھ اظہار تشکر کیا۔

تاہم دیکھا جائے تو بشمول میرے ہم ایک المیے کا شکار ہیں۔ کیا ہم نے سوچا ہے کہ حقیقت میں ہم کتنی بار اپنے اساتذہ کے ساتھ بامعنی گفتگو کرتے ہیں، ان کی رہنمائی حاصل کرتے ہیں، یا سال کے اس ایک دن کے بعد اپنی مدد فراہم کرتے ہیں؟ اگرچہ سوشل میڈیا ان کی کاوشوں کو تسلیم کرنے کا ایک ذریعہ ہے، لیکن حقیقی تعریف ایک مستقل اور حقیقی استاد اور طالب علم کے تعلقات کو فروغ دینے میں مضمر ہے۔ مجھے تو نہیں لگتا کہ اس ایک دن سے استاد کی قدر کا ہم حق ادا کر سکتے ہیں۔

اسی طرح ہم مدرز ڈے اور فادرز ڈے کو دلی پیغامات اور وسیع تحائف کے ساتھ مناتے ہیں۔ ہم اپنی بہنوں اور بھائیوں کے بارے میں ان کے مخصوص دنوں پر پوسٹ کرتے ہیں، جو ہماری زندگیوں میں ان کے ادا کرنے والے کردار کو اجاگر کرتے ہیں۔ پھر بھی، ہم کتنی بار اپنے والدین، بہنوں اور بھائیوں کے ساتھ ان کی خوشیوں اور جدوجہد کو سمجھنے، اپنے آپ کو بانٹنے اور ان خاندانی رشتوں کو مضبوط کرنے کے لیے بات چیت کرتے ہیں؟ یہ تعلقات کیلنڈر پر ایک دن کی حد سے کہیں زیادہ پھیلے ہوئے ہیں اور جو چاشنی ان میں موجود ہے اس کا ہمیں معلوم ہے مگر انا کی دیواروں کی وجہ سے وہ ڈھانے سے قاصر ہیں۔ ہم نے صرف سوشل میڈیا کی پوسٹ تک خود کو محدود کر لیا ہے اور پیار صرف سوشل میڈیا پر بانٹتے ہیں۔

ہم نے محبت کے لئے دن بھی مختص کیا ہے جس پر زیادہ تر ابھی تک اعتراضات ہی ہوئے ہیں۔ اس دن کو ویلنٹائن ڈے، یعنی 'محبت کا دن' کہا جاتا ہے، جو رومانیت اور محبوب کے ساتھ کھانوں تک ہی محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ اس دن تحائف کے تبادلے ہوتے ہیں جس سے یہ باور کرایا جاتا ہے کہ ہمیں کتنی زیادہ محبت ہے۔ اگرچہ محبت کا جشن منانا خوبصورت ہے، لیکن یہ یاد رکھنا بھی اتنا ہی اہم ہے کہ محبت محض مادی پیار کا لین دین نہیں ہے۔ سچی محبت کا اظہار باہمی احترام، اعتماد، تعاون اور ایک دوسرے کو سمجھنے اور بڑھنے کی مسلسل کوشش کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر غیر معمولی تحائف کی تصاویر پوسٹ کرنا پسندیدگیاں حاصل کر سکتا ہے، لیکن یہ کبھی بھی بامعنی، پائیدار رشتے کی گہرائی کو نہیں پہنچ سکتا۔

موجودہ دور میں ہم سوشل میڈیا کی تیز رفتار دنیا میں مخصوص دنوں پر رشتوں کو منانے کے جھنجھٹ میں پھنس کر رہ گئے ہیں تاہم یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ پوسٹس اور ہیش ٹیگز کے درمیان حقیقی بانڈز کو پروان چڑھایا جاتا ہے۔ پاکستانی تناظر میں جہاں رشتوں کو اہمیت دی جاتی ہے اور خاندان کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے، سوشل میڈیا کی سطحی نمائشوں سے آگے بڑھنا اور بامعنی حقیقی زندگی کے رابطوں کو فعال کرنا لازمی جزو ہے۔

آئیے آج کے دن سے ہم اپنے اساتذہ، والدین، بہن بھائیوں اور دیگر رشتوں میں بندھے ہوؤں سے محبت کو سال کے ایک دن تک محدود نہ رکھیں۔ اس کے بجائے ہر روز شکرگزاری کا اظہار کرنے، محبت کا اظہار کرنے اور ان بندھنوں کو مضبوط کرنے کا موقع بننے دیں جو زندگی کو حقیقی معنوں میں بامقصد بناتے ہیں۔ ایسا کرنے سے ہم اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر ہماری تقریبات صرف دکھاوے کے لیے نہیں ہیں بلکہ یہ حقیقی محبت اور احترام کی عکاس ہیں جو ہماری روزمرہ کی زندگیوں میں پھیلی ہوئی ہے۔

مصنف کالم نگار، فیچر رائٹر، بلاگر، کتاب 'صحافتی بھیڑیے' کے لکھاری اور ویمن یونیورسٹی صوابی میں شعبہ صحافت کے سربراہ ہیں۔ پشاور میں صحافت کا دس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔