سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی پوسٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ لاہور میں 116 سال سے قائم تعلیمی ادارے گورنمنٹ کوئین میری کالج کا میوزک ڈیپارٹمنٹ بند کیا جا رہا ہے۔ مگر اس دعوے کے کوئی ثبوت موجود نہیں ہیں۔
سوشل میڈیا صارف نے ایکس (سابق ٹوئٹر) پر دعویٰ کیا کہ گورنمنٹ کوئین میری کالج کی پرنسپل نے میوزکالوجی ڈیپارٹمنٹ بند کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ سوشل میڈیا صارف نے کوئین میری کالج کی پرنسپل پر تنقید کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ پنجاب سے معاملے کا نوٹس لینے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
میوزک سے شغف رکھنے والے لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ کوئین میری سکول کی بنیاد اس وقت کے امیر اور با اثر افراد کی بچیوں کی تعلیم کے لئے رکھی گئی تھی اور اس وقت کی ملکائیں اپنے ساتھ پیانو لے کر آئی تھیں جو کوئین میری کالج میں 100 سال تک استعمال ہوتے رہے۔ بعد میں وہ کباڑ میں بیچ دیے گئے۔ موسیقی سے لگاؤ رکھنے والے افراد اس بات کے بھی دعوے دار ہیں کہ یہ تاریخ کا حصہ ہے کہ کوئین میری کالج میں 1950 کی دہائی میں علامہ اقبال کی بہو، اعتزاز احسن کی بہن موسیقی کی پریکٹس کرتی رہی ہیں۔ اسی کالج میں ستار، طبلے ، پیانو کی کلاسز ہوا کرتی تھیں جبکہ ملک کی معروف گلوکارہ شازیہ منظور بھی اسی کالج کی طالبہ رہی ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کوئین میری کالج کی میوزک سوسائٹی اتنی ہی پرانی ہے جتنا پرانا کوئین میری کالج ہے۔
گورنمنٹ کوئین میری کالج کی پرنسپل پروفیسرڈاکٹر سدرہ عامر نے 'نیا دور' سے فون پر گفتگو کے دوران بتایا کہ سوشل میڈیا پر کالج کے میوزکالوجی ڈیپارٹمنٹ کو بند کرنے سے متعلق چلنے والی تمام اطلاعات جھوٹی اور بے بنیاد ہیں کیونکہ اس کالج میں میوزک کی ایک ٹیچر مہوش رشید ہیں اور وہ فرسٹ ایئر کی 12 اور سیکنڈ ایئر کی 5 طالبات کو بطور مضمون تعلیم دے رہی ہیں اور تمام کلاسیں ریگولر ہو رہی ہیں۔ انہوں نے کالج کے بورڈ آف گورنرز کی عدم موجودگی پر بتایا کہ پرنسپل کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ میوزک کے لئے ڈیلی ویجز ٹیچرز بھرتی کر سکتے ہیں اور اس مقصد کیلئے بوقت ضرورت میوزک کے ٹیچرز کی خدمات ڈیلی ویجز بنیاد پر حاصل کی جاتی ہیں۔
ڈاکٹر سدرہ عامر کے مطابق کوئین میری کالج کی میوزک ٹیچر مہوش رشید سارے معاملے کو ہوا دے رہی ہیں کیونکہ 14 اگست کے اہم ترین موقع پر وہ فنکشن میں موجود نہیں تھیں اور وہ کالج کے کسی بھی اہم ایونٹ پر موجود نہیں ہوتیں۔ پرنسپل گورنمنٹ کوئین میری کالج نے دعویٰ کیا کہ میوزک ٹیچر 14 اگست کو بیماری کا بہانہ بنا کر کالج کے مرکزی ایونٹ میں نہیں آئی تھیں اور شام کو موسیقی کے کسی نجی ایونٹ میں شریک تھیں جبکہ ٹیچر مہوش رشید نے کالج اوقات کے بعد کالج کے اندر ہی پرائیویٹ میوزک اکیڈمی بنا رکھی تھی اور اسی بنیاد پر ان کے خلاف کارروائی کی گئی تو انہوں نے پرنسپل کے پرسنل اسسٹنٹ کے ساتھ بدتمیزی کی اور کہا کہ پرنسپل تو آتے جاتے رہتے ہیں جبکہ ماتحت عملہ وہیں رہتا ہے۔
دوران گفتگو پرنسپل کوئین میری کالج نے یہ بھی بتایا کہ اگرچہ کوئین میری کالج کا میوزک ڈیپارٹمنٹ بہت پرانا ہے مگر کوئین میری کالج کی میوزک سوسائٹی سے متعلق کوئی نوٹیفکیشن موجود نہیں، یعنی ان کے مطابق کوئین میری کالج میں کوئی میوزک سوسائٹی نہیں بنی ہوئی۔
گورنمنٹ کوئین میری کالج کی میوزک ٹیچر مہوش رشید نے 'نیا دور' کے رابطہ کرنے پر بتایا کہ وہ 8 سال سے اس کالج میں میوزک کی تعلیم دے رہی ہیں اور ایک دن بھی کالج سے رخصت نہیں لی، اسی وجہ سے انہیں گذشتہ برس کالج کے 500 ملازمین میں سے بہترین ملازم ہونے کے سرٹیفیکیٹ سے نوازا گیا۔ مہوش رشید نے مزید بات کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ بطور سرکاری ملازم وہ مزید مؤقف نہیں دے سکتیں کیونکہ مزید بیان دینے سے ان کے خلاف مزید انکوائری شروع ہو سکتی ہے۔
جب پرنسپل ڈاکٹر سدرہ عامر سے یہ سوال کیا گیا کہ جب مہوش رشید بہترین ملازم کا ایوارڈ بھی جیت چکی ہیں تو پھر یہ مسئلہ کیوں پیدا ہو رہا ہے؟ اس پر پرنسپل صاحبہ کا جواب تھا کہ مہوش رشید کو کبھی بھی بہترین ملازم کا ایوارڈ نہیں دیا گیا، میوزک ٹیچر کا یہ دعویٰ درست نہیں ہے۔
'نیا دور' کے ان کے خلاف کالج میں پرائیویٹ میوزک اکیڈمی چلانے کے الزام پر جاری انکوائری بابت سوال پر مہوش رشید نے کہا کہ وہ لندن سے پاکستان کی محبت میں میوزک کی خدمت کرنے کے لیے آئی تھیں اور اس جذبے کا صلہ انہیں اس انکوائری کی صورت میں مل رہا ہے۔
گورنمنٹ کوئین میری کالج کی ایک ٹیچر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ میوزک ٹیچر مہوش رشید نے سرکاری بجٹ کے علاوہ اپنے خرچ سے کالج کے میوزک ڈیپارٹمنٹ میں موسیقی کے آلات نصب کروائے ہیں۔ کالج کا میوزک ڈیپارٹمنٹ پنجاب ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے زیر نگرانی ہونے کی وجہ سے میوزک کی تعلیم حاصل کرنے والی طالبات سے کسی ایونٹ کے انعقاد پر ان کو ٹکٹس فروخت کیے جاتے ہیں جس کی رقم کالج انتظامیہ کے پاس ہی جمع ہوتی ہے۔ کالج ٹیچر کا یہ دعویٰ ہے کہ میوزکالوجی ڈیپارٹمنٹ کا بجٹ کم ہونے کی وجہ سے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر سدرہ عامر نے میوزک ٹیچر مہوش رشید پر زور ڈالا کہ وہ کالج اوقات میں ہی خواہش مند طالبات کو 2 ہزار روپے ماہانہ کے عوض میوزک کی تعلیم دیں اور اس کی فیس کیش کی صورت میں پرنسپل آفس کو جمع کروانے پر مجبور کیا گیا جبکہ میوزک ٹیچر اس بات پر زور دے رہی تھیں کہ خواہشمند طالبات سے میوزک کی فیس بھی ان کی سالانہ فیس میں شامل کر کے حاصل کر لی جائے۔
پرنسپل کوئین میری کالج ڈاکٹر سدرہ عامر نے کالج کی ٹیچر کے اس دعوے کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے کالج کے تمام مالی معاملات بینک کے ذریعے سے چلائے جاتے ہیں اور واؤچر کی صورت میں رقم بینک میں جمع کروائی جاتی ہے۔ کیش کی صورت میں ہمارے کالج میں کوئی بھی معاملہ سرانجام نہیں پاتا۔
شناخت ظاہر نہ کرنے والی ٹیچر نے اس بات کا بھی دعویٰ کیا کہ میوزک ٹیچر کی زیر نگرانی کالج میں ہونے والے موسیقی کے پروگرام میں مدعو کئے گئے نامور گلوکاروں کے ساتھ بھی کالج پرنسپل کی قریبی ٹیچرز نے بد سلوکی کی۔ ان کا نام لسٹ میں شامل ہونے کے باوجود سکیورٹی کے نام پر کالج میں داخلے سے روکا گیا اور بد تہذیبی کی گئی جس کا پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر سدرہ عامر نے کوئی نوٹس نہیں لیا بلکہ میوزک ڈیپارنمنٹ کو دیے گئے کمرے بھی خالی کرنے کے احکامات دیے گئے اور پرنسپل سے مدلل بات کرنے پر ٹیچر مہوش رشید کے خلاف پروب کمیٹی نے کارروائی شروع کر دی اور مہوش رشید کو اپنا تبادلہ نہ کروانے کی صورت میں پیڈا ایکٹ کے تحت کارروائی کی دھمکیاں دینا اور ہراساں کرنا شروع کر دیا گیا۔
'نیا دور' کے سوال کہ اگر کالج کی میوزک ٹیچر مہوش رشید کو کسی دوسری جگہ ٹرانسفرکر دیا گیا تو کیا گورنمنٹ کوئین میری کالج کا میوزکالوجی ڈیپارٹمنٹ بند ہو جائے گا؟ پر شناخت ظاہر نہ کرنے والی ٹیچر نے دلیل دی کہ پورے پنجاب میں میوزک کے 4 ٹیچرز ہیں، اگر انہیں کسی اور محکمے میں ٹرانسفر کیا گیا تو ان کے متبادل کوئی ٹیچر اس کالج میں دستیاب نہیں ہو گا جس کا نتیجہ ڈیپارٹمنٹ بند کرنے کی صورت میں نکلے گا کیونکہ باقی ٹیچرز سمن آباد کالج، باغبانپورہ کالج اور گورنمنٹ کالج برائے خواتین کوپر روڈ اپنی جگہوں پر کام کر رہی ہیں۔
'نیا دور' ٹیم کی تحقیقات میں بظاہر کالج پرنسپل اور میوزک ٹیچر کے مابین تنازعے کی بنیادی وجہ میوزک سکول کا وہ کمرہ ہے جو اس وقت میوزک ٹیچر مہوش رشید کے پاس ہے اور پرنسپل ڈاکٹر سدرہ عامر کا مطالبہ ہے کہ میوزک ٹیچر یہ کمرہ خالی کر دیں۔ پرنسپل صاحبہ کا مؤقف ہے کہ میوزک ڈیپارٹمنٹ کو جتنی جگہ درکار ہے وہ انہیں میسر ہے جبکہ اس کمرے پر میوزک ٹیچر نے الگ سے قبضہ کر رکھا ہے۔ پرنسپل صاحبہ کے مطابق باقی ٹیچرز ان سے مطالبہ کر چکی ہیں کہ یہ کمرہ میوزک ٹیچر سے خالی کروا کر ان کے حوالے کیا جائے تاکہ وہ اپنی کلاسز اس روم میں لے سکیں۔ جبکہ دوسری جانب میوزک ٹیچر مہوش رشید بضد ہیں کہ وہ یہ کمرہ نہیں چھوڑیں گی۔ یہ تنازعہ جب سوشل میڈیا پر آیا تو اس کی شکل کچھ اور ہی ہو گئی اور تاثر ملنے لگا جیسے کوئین میری کالج کا میوزک ڈیپارٹمنٹ ہی بند ہونے جا رہا ہے، جبکہ حقیقت میں ایسا کوئی خطرہ نہیں ہے اور یہ ڈیپارٹمنٹ بدستور چلتا رہے گا۔