نواسہ رسول حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور اُن کے ساتھیوں کی عظیم قربانی کی یاد میں آج ملک بھر میں یوم عاشور کے موقع پر چھوٹے بڑے شہروں میں جلوس نکالے جارہے ہیں جس میں عزادار نوحہ خوانی و سینہ کوبی کر رہے ہیں۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ شہدا کربلا کی یاد میں عزاداری صرف مسلمان ہی نہیں کرتے بلکہ ہندو مذہب میں بھی ایک گروہ ایسا ہے جو غم حسین میں ہر سال اشک بار ہوتا ہے اور شہدا کربلا کی عظیم قربانیوں کو یاد کرتا ہے۔
ہندوؤں کے اس گروہ کا کہنا ہے کہ ہمارا حسین سے عشق ہے۔ محبت ہے۔ حسین صرف مسلمانوں کے رہنما نہیں۔ وہ انسانیت کے لیے محبت کا پیغام لائے تھے۔
مذہبی نفرتوں اور دوریوں کے باوجود ہندوؤں کا یہ گروہ محرم کی رسموں میں حصہ لیتا ہے اور خود کو حسینی برہمن کہتا ہے۔ یہ حسینی برہمن سندھ اور پورے بھارت میں پائے جاتے ہیں اور کئی نسلوں سے اپنے طریقوں سے غم حسین منا رہے ہیں۔
یہ حسینی برہمن کون ہیں؟
اگر آپ یہ چاہیں کہ آپ کو حسینی برہمن کی حقیقت کے بارے میں تاریخی شواہد یا ثبوت فراہم کیے جائیں تو یہ ممکن نہیں ہوگا۔ کیونکہ، حسینی برہمن کی تاریخ خاندانی روایات اور ورثے میں ملنے والی کہانیوں سے تشکیل میں آئی ہے۔
حسینی برہمن کا دعویٰ ہے کہ ان کے آباؤ اجداد میدان کربلا میں امام حسین ابن علی رضی اللہ تعالی عنہ کے شانہ بشانہ لشکر یزید سے لڑے۔
معروف لکھاری انتظار حسین نے اپنے انگریزی کالم برہمن ان کربلا میں لکھا ہے کہ وہ پہلے حسینی برہمن کو صرف ہندو افسانہ ہی سمجھتے تھے اس لئے انہوں نے اس بات کو جھٹلا دیا۔ جس پر ایک خاتون پروفیسر نونیکا دت نے انہیں بتایا کہ وہ خود حسینی برہمن ہے۔ خاتون نے بتایا کہ ان کے جدِ امجد راہیب دت اپنے سات بیٹوں اور دو دوسرے برہمنوں کے ساتھ مل کر امام حسین کے مشن میں حصہ لیا۔ ان میں سے ایک یعنی راہیب دت بچ کر واپس آئے وہ افغانستان کے راستے ہندوستان میں داخل ہوئے اور سیالکوٹ کے ایک گاؤں کے مقام پر آباد ہوئے تقسیم کے بعد یہ خاندان بھارت چلا گیا اور یہ لوگ مختلف شہروں میں پھیل گئے۔
خاتون پروفیسر نے انتظار حسین کو مزید بتایا کہ مشہور فلمی اداکار سنیل دت کا تعلق بھی انہی حسینی برہمنوں کے خاندان سے ہے جس کی تصدیق فلمی اداکار منوج کمار نے بھی کی۔ بلکہ نرگس کے والد بھی پہلے حسینی برہمن تھے بعد میں مسلمان ہوگئے تھے۔
نونیکا دت نے یہ بھی بتایا کہ راہیب دت واپسی پر اپنے ساتھ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک بال مبارک بھی لے کر آئے تھے۔ جو کشمیر میں کسی جگہ موجود ہے (مشہور ہے کہ یہ مقام درگاہ حضرت بل ہے)۔
انتظار حسین نے نونیکا دت سے پوچھا کہ کیا آپ لوگ مسلمان ہو گئے ہیں۔ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہرگز نہیں۔ ہم ہندو برہمن ہی ہیں مگر حسینی ہونے کے ناطے ہم مندروں وغیرہ میں نہیں جاتے نہ دوسری ہندووانہ رسومات ادا کرتے ہیں اور یہ کہ وہ محرم کے دنوں میں حسین کا ماتم بھی کرتے ہیں اور اپنے شہیدوں کی یاد بھی مناتے ہیں۔
حسینی برہمنوں کی روایات سے پتا چلتا ہے کہ ان کے اجداد عرب سے تجارتی تعلق رکھتے تھے۔ دور نبوت سے پہلے جو تجارتی قافلے سندھ سے مکے جاتے تھے، ان میں یہ ہندو برہمن بھی گئے تھے۔ جب سانحہ کربلا پیش آیا تو ان دنوں ہندو برہمن خاندان کا ایک تجارتی قافلہ دشت نینوا کے قریب سے گزر رہا تھا۔ اس کی منزل مقصود ملک شام تھی۔ جب اس تجارتی قافلے کو یہ علم ہوا کہ کربلا کے مقام پر اموی بادشاہ کی ایک بڑی فوج کسی باغی کی سرکوبی کے لئے اتری ہے۔ مزید پوچھنے پر یہ پتہ چلا کہ یہ باغی کوئی اور نہیں نبی کریم ﷺ کے نواسے سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں جو اپنے خاندان اور چند ساتھیوں کے ہمراہ مکے سے کوفہ جا رہے تھے، اور اموی بادشاہ کے ایک بھاری لشکر نے انہیں گھیر لیا ہے۔
یہ باتیں سن کر ایک ہندو برہمن راہیب دت اور اس کے سات بیٹوں اور دو ساتھیوں نے تجارتی قافلے میں اپنے ساتھیوں کو اپنا سامان دیا اور خود سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملاقات کے لئے کربلا تشریف لے گئے۔ ان لوگوں نے سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملاقات کی اور ان کی طرف سے اس جنگ میں شرکت کی۔ راہیب دت کے ساتوں بیٹے بوگندر سکند، راکیش شرما، شاس رائے، شیر خا، رائے پن، رام سنگھ، دھارو اور پورو اور دونوں ساتھی کربلا میں قربان ہوگئے جبکہ راہیب دت کو گرفتار کیا گیا اور بعد میں رہا کر کے قافلے والوں کے سپرد کردیا گیا جو اس وقت وہیں موجود تھا۔
حسینی برہمن کی روایات میں ہے کہ راہیب دت کربلا سے نکل کر امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خاندان کے لوگوں سے بھی ملا تھا۔ جب اس نے انہیں بتایا کہ میں اصل میں برہمن ہوں۔ تو انہوں نے کہا کہ تم اب حسینی برہمن ہو اور ہم تمہیں یاد رکھیں گے۔
جب راہیب دت واپس پہنچا تو وادی سندھ میں ہندوؤں کا ایک نیا گروہ پیدا ہوا جس کا نام حسینی برہمن تھا۔ یہ ہندو ہیں مگر اپنا تعلق امام حسین سے جوڑتے ہیں۔ حسینی برہمن آج بھی موجود ہے اور ہر سال محرم الحرام میں شہدا کربلا کی یاد مذہبی جوش و جذبے کے ساتھ مناتے ہیں۔
یہ سب ایک ایسی کہانی ہے جسے تاریخ سے ثابت نہیں کیا جاسکتا مگر حسینی برہمن کے نام سے یہ لوگ سندھ اور برصغیر میں موجود ہیں۔