جتنی جلدی ہو سکے، پنجاب اسمبلی میں ووٹنگ کرائیں، معاملہ آج ہی حل کریں، لاہور ہائیکورٹ

جتنی جلدی ہو سکے، پنجاب اسمبلی میں ووٹنگ کرائیں، معاملہ آج ہی حل کریں، لاہور ہائیکورٹ
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس امیر بھٹی نے وزیر اعلیٰ پنجاب کا الیکشن کرانے کے لیے متفرق درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے تمام فریقین کو آج ہی آپس میں بیٹھ کر معاملہ حل کرنے کی ہدایت کر دی۔

چیف جسٹس امیر بھٹی نے وزیر اعلیٰ پنجاب کا الیکشن کرانے کے لیے حمزہ شہباز اور ڈپٹی اسپیکر سردار دوست مزاری کی درخواستوں پر سماعت شروع کی۔

عدالت نے اس دوران مسلم لیگ ق کی فریق بننے کی درخواست پر بھی سماعت کی۔

مسلم لیگ(ق) کے وکیل عامر سعید نے کہا کہ ہمارے اراکین کو مبحوس رکھا ہوا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے امیدوار چوہدری پرویز الٰہی فریق ہیں، ایک سوال ہے، اجلاس کریں اور وہاں یہ معاملہ دیکھیں، دیکھنا یہ ہے کہ کیا اجلاس اس طرح ملتوی ہو سکتا ہے یا نہیں۔

شہباز شریف کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ہم بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ اجلاس بلائیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہم نے متعلقہ اتھارٹی سے یہ پوچھنا ہے کہ وزیر اعلیٰ کے الیکشن کرانے کا طریقہ کار کیا ہے، سب سے پہلے یہ دیکھنا ہے کہ وزیر اعلیٰ کا الیکشن کیسے ہونا ہے۔

حمزہ شہباز کے وکیل نے کہا کہ عثمان بزدار کے استعفے کے بعد ابھی تک وزیراعلیٰ کا عہدہ خالی ہے اور اس وقت پورا صوبہ بغیر چیف ایگزیکٹو کے چل رہا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سیکریٹری پنجاب اسمبلی ریکارڈ دیکھ کر بتائیں کر الیکشن کا پراسس شروع ہوا جس پر سیکریٹری نے جواب دیا کہ یکم اپریل کو عثمان بزدار کا استعفی منظور ہوا اور دو اپریل کو الیکشن کا پراسس شروع ہوا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا پراسس شروع ہوا جس پر سیکریٹری پنجاب اسمبلی نے جواب دیا کہ دو اپریل کو الیکشن کا اعلان ہوا اور اسی دن اسکروٹنی کے بعد کاغذات نامزدگی منظور کیے گئے، 3اپریل کو الیکشن کے لیے اجلاس بلایا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ تین اپریل کو کس نے سیشن کا انعقاد کیا جس پر سیکریٹری نے بتایا کہ ڈپٹی اسپیکر دوست مزاری نے سیشن کو چیئر کیا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ تین اپریل کو اجلاس شروع ہونے سے پہلے خواتین کی لڑائی شروع ہو گئی اور نعرے بازی کی گئی، تلاوت کے فوری بعد شدید لڑائی ہوئی اس لیے سیشن چھ اپریل تک ملتوی کر دیا گیا تھا۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا لڑائی کی ویڈیو موجود ہے جس پر سیکریٹری پنجاب اسمبلی نے کہا کہ جی لڑائی کی ویڈیو موجود ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اپوزیشن ارکان رات آٹھ بجے تک لابی میں رہے اور وہاں توڑ پھوڑ کی گئی، میں نے چار اپرہل کو نقصان سے متعلق سپیکر کو رپورٹ بنا کر بھیجی تھی، پانچ اپریل کو اجلاس سولہ اپریل تک ملتوی کر دیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ چھ اپریل کو سوشل میڈیا پر ڈپٹی اسپیکر کا ایک نوٹیفیکیشن چلا کہ اجلاس 6اپریل کو شام میں بلا لیا گیا ہے، وہ کاغذ یا نوٹیفیکیشن اسمبلی سیکریٹریٹ کو موصول نہیں ہوتا۔

چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ جب ڈپٹی اسپیکر کا نوٹیفکیشن چل رہا تھا تو آپ نے ڈپٹی اسپیکر سے رابطہ کیا تو سیکریٹری نے جواب دیا کہ ہم نے ڈپٹی اسپیکر کو بہت فون کیے لیکن انہوں نے بات نہیں سنی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنے سیکریٹریٹ سے بھی چیک کیا لیکن وہ نوٹیفیکیشن ہمیں موصول نہیں کرایا گیا، ہم نے اسپیکر کو بتایا کہ یہ کاغذ جعلی ہے تو انہوں نے ڈپٹی اسپیکر کے اختیارات واپس لے لیے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کے اختیارات واپس لینے کی کیا وجہ بنی، جب اپکو یہ لیٹر ملا ہی نہیں تو آپ نے عمل کہاں کرانا تھا۔

سیکریٹری پنجاب اسمبلی نے عدالت کو بتایا کہ بعد میں ڈپٹی اسپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد آ گئی تھی، جب تحریک عدم اعتماد آ جائے تو ڈپٹی اسپیکر اجلاس نہیں بلا سکتے تھے اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ بات کہاں لکھی ہے۔

چیف جسٹس امیر بھٹی نے کہا کہ عدالت کے پاس یہ سوال ہے کہ الیکشن ملتوی کیا جا سکتا تھا یا نہیں، بظاہر چیف منسٹر کا الیکشن ملتوی نہیں ہو سکتا تھا، جس دن الیکشن ہونے ہوتے ہیں اس ایک دن پہلے کاغذات نامزدگی لیے جاتے ہیں۔

پرویز الٰہی کے وکیل نے کہا کہ الیکشن سے قبل کسی بھی دن کاغذات نامزدگی لیے جا سکتے ہیں، رولز میں وقت کا ذکر کیا گیا ہے دن کا نہیں لکھا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بظاہر الیکشن کا وقت تبدیل کیا جا سکتا ہے لیکن دن تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔

چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ اسپیکر کے پاس ڈپٹی اسپیکر کے اختیارات کینسل کرنے کا کیا اختیار تھا جب اسپیکر خود وزیر اعلیٰ کا امیدوار ہے، سوال یہ ہے جس نے بھی الیکشن کی تاریخ بدلی وہ کس قانون کے تحت بدلی، کوئی الیکشن شیڈول سے ہٹ کر کیسے تاریخ تبدیل کر سکتا ہے۔

پرویز الٰہی کے وکیل نے کہا کہ اسمبلی کے معاملات میں عدالت مداخلت نہیں کر سکتی، سپریم کورٹ میں یہ معاملہ آیا تھا لیکن اس پر کوئی حکم نہیں آیا۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ میں سنا تھا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے اس پر سپریم کورٹ میں کوئی بیان دیا تھا۔

یہ بات سن کر ایڈووکیٹ جنرل احمد اویس روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ میں نے سپریم کورٹ میں کہا تھا کہ کوئی بھی قانون میں دیے گئے اختیارات سے تجاوز نہیں کرے گا۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ صوبائی معاملہ ہے، اس لیے بہتر ہے کہ اسے معاملے کو ہائی کورٹ لے جائیں۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ اپوزیشن نے فلیٹیز ہوٹل میں اجلاس بلایا اور ڈپٹی اسپیکر نے اسے چئیر کیا۔

اعظم نذیر تارڑ نے اس بات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ یہ غلط بات ہے، ڈپٹی اسپیکر نے اجلاس کی صدارت نہیں کی، وہاں ایک علامتی اجلاس ہوا تھا۔

ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ مذکورہ اجلاس میں حمزہ شہباز کو وزیر اعلیٰ منتخب کیا گیا تو میں نے اعظم نذیر تارڑ کو مبارکباد بھی دی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہاں سارے سینئر وکلا موجود ہیں، آپ خود دیکھیں کہ الیکشن رولز کسی مقصد کے تحت ہی بنے ہیں، ایسے تو نہیں ہوسکتا کہ جب دل چاہا رولز کو مان لیا اور جب دل چاہا رولز کو نہ مانا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ نے بھی کہا تھا کہ عدم اعتماد کی تحریک آگے نہیں جائے گی بلکہ اس پر ووٹنگ ہو گی، اسمبلی نے رولز کے مطابق ہی چلنا ہے اس سے باہر نہیں جا سکتے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 16 اپریل کو ہی الیکشن کیوں ہو گا، کل کیوں نہیں ہو سکتا، آپ نے الیکشن کے لیے اتنی لمبی تاریخ دے دی ہے۔

جسٹس امیر بھٹی نے کہا کہ اسمبلی میں کوئی بحث تو ہونی نہیں، صرف ووٹنگ ہونی ہے، کل یا پرسوں ووٹنگ کروائیں، جتنی جلدی ہو سکے ووٹنگ کروانی چاہیے۔

چیف جسٹس نے تمام فریقین کو آج ہی آپس میں بیٹھ کر معاملہ حل کرنے کی ہدایت کر دی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ تمام فریقین کوئی حل نکال کر عدالت کو آگاہ کریں، دو بجے پھر کیس سن لیتے ہیں، اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر، امیدوار سب ایڈوکیٹ جنرل پنجاب کے آفس میں بیٹھ جائیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ ہم سب اس ملک کے شہری ہیں، باہر تماشہ نہ دکھائیں، گھر میں مل بیٹھ کر معاملہ حل کر لیں، یہی بہتر ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ دو بجے تمام فریقین واپس آئیں اور کوئی حل نکال کر آئیں۔

عدالت نے مقدمے کی سماعت آج دوپہر دو بجے تک ملتوی کردی۔