ظلم اک بار پھر بازی مار چکا ہے

ظلم اک بار پھر بازی مار چکا ہے
19، 20 سال کے نوجوان کی تصویر فیس بک کھولتے ہی آنکھوں کے سامنے تھی۔ مگر اُس پہ لکھے لال رنگ میں  یہ تین الفاظ "جسٹس فار ضیغم"۔۔۔۔۔۔۔ نہیں، نہیں، دل نے تردید کی۔ ابھی کل تک تو یہی الفاظ  قطب رند کے لیے لگائے ہوئے تھے نا سب نے، تو پھر یہ کیا ہے، یہ  ضیغم کون ہے!

دل لاکھ بار نفی کرنا چاہے مگر کیا کروں کہ اندھیر نگری ہے نا، ظلم اک بار پھر بازی مار چکا ہے۔

ضیغم بھی تو اسی اندھیر نگری کا باسی تھا جس میں کبھی کوئی شاہزیب بھی بستا تھا، وہی نگری جہاں کبھی کوئی مشعال خان ہوا کرتا تھا، ہاں! وہی اندھیر نگری جہاں نقیب بھی  تھا اور قطب رند بھی رہا کرتا تھا۔ یہ سب اور بہت سے ستارے اس اندھیر نگری میں کہیں ہمیشہ کے لئے کھو چکے۔ اے ظلم! تمہیں جیت مبارک ہو۔

مگراے ظلم! کچھ دیر کو دم تو لینے دو، زخم کو بھرنے تو دو، ابھی پچھلے آنسو تھمتے نہیں کہ تم پھر کوئی اور وار کر دیتے ہو۔ سنو! اتنے بھی تو ظالم نہ بنو، دلِ غمزرہ سنبھل تو جائے، ابھی پچھلے جوانوں کا زخم کچھ ماند تو پڑنے دو۔

تُم آ جانا پھر کسی روز کوئی نئی قضا کی تلوار لیے، پھر کسی پھول کو لقمہ اجل بنا لینا۔ گھبراؤ مت۔ میرا یقین کرو، یہ واقعی اندھیر نگری ہے یہاں کوئی تمہیں کچھ نہ کہے گا، کوئی تمہارا کچھ بگاڑ نہ پائے گا۔ ہم سوئی ہوئی قوم ہیں، ہمارے ضمیر تو کب کے مر چکے ہیں۔ ہمیں کیا غرض کس پہ تم نیا وار کرو گے، کسے انصاف ملا، کسے نہیں۔ ہمیں نصف صدی سےبھی زیادہ عرصہ ہوا تمہارا ہی ساتھ دیتے، کیا اب بھی کوئی شک ہے ہماری وفا پہ تمہیں؟

بس چھوٹی سی ایک التجا سن لو کہ اب جلدی نہ کرنا، اب کی بار آؤ تو ذرا ٹھہر کے، تحمل سے آنا۔ یہ نوجوان روشن ستارے ہی تو میری اِس اندھیر نگری کا کل سرمایہ ہیں، اِس اندھیری بستی میں اِنہیں کچھ دیر کو روشنی بکھیرنے دینا، کچھ دن تو چمکنے دینا۔