”میری بہن آئی سی یو میں تھی، وکلاء نے آکسیجن ماسک اتار دیا، وہ تڑپ تڑپ کر مر گئی“

پنجا ب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں وکلا نے ظلم ، بربریت اور بے حسی کی انتہا کردی۔ہنگامہ آرائی کے دوران  وکلا نے تشویشناک حالت کی شکار ایک لڑکی کا آکسیجن ماسک اتارپھینکا جس کی وجہ سے وہ وہیں پر تڑپ تڑپ کر دم توڑ گئی۔انتقال کرنے والی لڑکی کی عمر بائیس سال تھی ۔ اسے پانچ روز قبل پی آئی سی منتقل کیاگیاتھا۔

https://youtu.be/DT-nV_wV2Xc

یاد رہے ک وکلاء رکاوٹیں ہٹا کر ہسپتال میں داخل ہوئے، راستے میں کھڑی گاڑیوں کو نقصان پہنچایا، ایمرجنسی کے شیشے توڑ دیے، اسپتال کے باہر سے بھی اینٹیں برسائیں، باہر کھڑی پولیس موبائل کو آگ لگادی۔


وزیر اطلاعات فیض الحسن چوہان کو بھی نہ چھوڑا، تشدد کا نشانہ بنایا، آنے جانے والوں پر ڈنڈے برسائے، مریضوں کے اہل خانہ زد میں آئے، ڈاکٹرز کو بھی مارا پیٹا، وکلا نے ہوائی فائرنگ بھی کی، صحافیوں کو بھی نہیں چھوڑا ، جیونیوز کے رپورٹر احمد فراز پر بھی تشدد کیا، ایک وکیل نےاسلحے کے زور پر قریبی دکانیں بند کروائیں۔ وکلاء کی جانب سے پی آئی سی میں گھس کر توڑ پھوڑ اور ڈاکٹروں کو تشدد کا نشانہ بنانے کی ویڈیو بھی منظر عام پر آ گئی ہے۔


ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے باہر احتجاج کرنے والے کئی وکلا اسپتال کا گیٹ کھلوا کر اسپتال کے اندر داخل ہورہے ہیں اور وہ ایمرجنسی وارڈز میں داخل ہوکر توڑ پھوڑ کررہے ہیں۔

واضح رہے کہ مذکورہ معاملہ اس وقت شروع ہوا جب وکلا نے الزام عائد کیا کہ وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں ینگ ڈاکٹرز وکلا کا مذاق اڑا رہے تھے جس پر انہوں نے سوشل میڈیا پر مہم چلائی۔ تاہم ڈاکٹر کے مطابق وکلا کا ایک گروپ انسپکٹر جنرل کے پاس گیا تھا اور انہیں کہا تھا کہ ‘دو ڈاکٹرز’ کے خلاف اے ٹی اے کی دفعہ 7 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا، تاہم ان کے بقول آئی جی نے اس معاملے پر انکار کردیا۔

https://twitter.com/usman_reps/status/1204710563043008513?s=20

بعد ازاں آج وکلا کی بڑی تعداد ‘ویڈیو’ کے خلاف مظاہرہ کرنے کے لیے پی آئی سی کے باہر جمع ہوئی، تاہم یہ احتجاج پرتشدد ہوگیا اور وکلا نے پہلے ہسپتال کے داخلی و خارجی راستے بند کردیے۔

مشتعل افراد نے پولیس موبائل کو بھی آگ لگا دی—فوٹو: ڈان نیوز

معاملہ شروع کہاں سے ہوا؟


یہ معاملہ اس وقت شروع ہوا جب چند روز قبل کچھ وکلا پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیولوجی میں ایک وکیل کی والدہ کے ٹیسٹ کے لیے گئے، جہاں مبینہ طور پر قطار میں کھڑے ہونے پر وکلا کی جانب سے اعتراض کیا گیا۔اسی دوران وکلا اور ہسپتال کے عملے دوران تلخ کلامی ہوئی اور معاملہ ہاتھا پائی تک پہنچ گیا اور مبینہ طور پر وہاں موجود وکلا پر تشدد کیا گیا۔

مذکورہ واقعے کے بعد دونوں فریقین یعنی وکلا اور ڈاکٹرز کی جانب سے احتجاج کیا گیا اور ایک دوسرے پر مقدمات درج کرنے کا مطالبہ کیا گیا، تاہم بعد ازاں ڈاکٹرز کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا۔

اس مقدمے کے اندراج کے بعد وکلا کی جانب سے کہا گیا کہ ایف آئی آر میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعات شامل کریں، تاہم پہلے ان دفعات کو شامل کیا گیا بعد ازاں انہیں ختم کردیا گیا۔

جس کے بعد ینگ ڈاکٹرز کی جانب سے ایک پریس کانفرنس میں مذکورہ واقعے پر معافی مانگ لی گئی اور معاملہ تھم گیا۔

تاہم گزشتہ روز ینگ ڈاکٹرز کی ایک ویڈیو وائر ہوئی جس میں ڈاکٹر اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے دیکھا گیا، جس میں مبینہ طور پر وکلا کا ‘مذاق’ اڑایا گیا تھا، جس پر وکلا نے سوشل میڈیا پر ڈاکٹر کے خلاف ایک مہم شروع کردی۔

اس معاملے پر بدھ کو ایوان عدل میں لاہور بار ایسوسی ایشن کا اجلاس عاصم چیمہ کی سربراہی میں ہوا جس میں مزید کارروائی کے لیے معاملے کو جمعرات تک ملتوی کردیا گیا، تاہم کچھ وکلا نے بدھ کو ہی ڈاکٹرز کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے پی آئی سی کا رخ کیا۔