مولا جٹ: پاکستانی "کاؤ بوائے" کلاسک سے متعلق دلچسپ حقائق

مولا جٹ: پاکستانی
مشہور پنجابی فلم مولا جٹ کا ریمیک اگلے سال کے ابتدا میں سنیما گھروں کی زینت بنے گا۔ فلم کا ٹریلر جسے کہ حال ہی میں سوشل میڈیا کی مختلف ویب سائٹس پر جاری کیا گیا ہے اس کو دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ فلم بہت بڑے بجٹ کے ساتھ تیار کی گئی ہے جو کہ ایسی فلم بین نسل کیلئے ہے جو بڑے بجٹ پر مبنی ہالی وڈ اور بالی وڈ کی فلمیں دیکھ کر پروان چڑھی ہے۔ جہاں مولا جٹ فلم کے ریمیک کو پاکستانی فلم انڈسٹڑی کا بتدریج بہتری کی جانب بڑھنے کا ایک سلسلہ  قرار دیا جا سکتا ہے وہیں یہ بات بھی مدنظر رکھنی چاہیے کہ جب مولا جٹ نمائش کیلئے پیش کی گئی تو فلم انڈسٹری وی سی آر کی آمد کے بعد آہستہ آہستہ مقبولیت کھوتی چلی جا رہی تھی۔ فلم انڈسٹری کو زوال کی جانب دھکیلنے والا دوسرا عنصر ضیاالحق کا متعارف کردہ تنگ نظر کلچر اور پابندیاں تھیں جو اس کے 1977 میں لگائے گئے مارشل لا کے بعد سامنے آئیں۔ لیکن سچ یہ ہے کہ 1979 کے بعد پاکستانی فلم انڈسٹری (جس نے 1960 سے 1970 کے درمیانی عشرے تک تخلیقی اور کمرشل میدانوں میں کامیابی حاصل کی تھی) بھارتی فلموں کی یلغار کا مقابلہ کرنے میں ناکام ثابت ہوئی۔ بھارتی فلمیں سمگلنگ کے ذریعے پاکستان پہنچائی جاتی تھیں اور وی سی آر پر دیکھی جاتی تھیں۔ پاکستانی فلم انڈسٹری ضیا الحق حکومت کی نئی سینسر پالیسیوں کا سامنا بھی نہیں کر پائی۔ اگر فلم انڈسٹری مضبوط ہوتی جیسے کہ یہ 1975 تک تھی تو یہ کم سے کم کچھ نہ کچھ تسلط فلم بینوں پر رکھنے میں کامیاب ہو جاتی لیکن اس کے برعکس اس کا شیرازہ بکھرنا شروع ہو گیا اور نوے کی دہائی میں اس کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔

وی سی آر اور وی ایس ایچ ٹیپ جن کا رجحان ختم ہو چکا ہے


جب پاکستانی فلموں کے تاریخ دان 1980 کے بعد سے فلم انڈسٹری کے زوال پر بات کرتے ہیں تو وہ اس کی وجہ اردو فلموں کے بند ہو جانے کو ٹھہراتے ہیں۔ اس زوال نے فوری طور پر ہی فلم انڈسٹری سے منسلک افراد کو بے روزگار نہں کیا تھا، البتہ پاکستان کے اردو فلموں کے سنیما سے وابستہ کچھ مشہور افراد کو ان بلندیوں سے اترنا پڑا جو انہیں فلم بینوں اور پرستاروں نے عطا کی تھیں لیکن یہ سچ ہے کہ وی سی آر کی آمد، ضیا کی پالیسیوں اور فلم انڈسٹری کے تخلیقی دیوالیہ پن نے اردو فلموں اور شہری علاقوں کی مڈل کلاس فلم بینوں کیلئے سنیما کے دروازے بند کر دیے۔ گو سنیما گھر بھی کافی بڑی تعداد میں بند ہونا شروع ہو گئے لیکن اس کے باوجود کئی سنیما گھر کامیابی کے ساتھ (کم سے کم 80 کی دہائی تک) اور 2000 کے پہلے سالوں میں ملٹی پلکس سکرینوں کی آمد سے قبل تک کام کرتے رہے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر فلم انڈسٹری برباد ہو گئی تھی تو جو سنیما گھر ابھی بھی کام کر رہے تھے وہ منافع کیسے کما رہے تھے اور فلم اننڈسٹری سے منسلک مرد اور خواتین بڑی تعداد میں بیروزگار کیوں نہ ہوئے؟

جواب یہ ہے کہ بہت سے افراد بالخصوص اردو سنیما سے منسلک لاتعداد افراد بے روزگار بھی ہوئے۔ لیکن انڈسٹری میں ایسے افراد بھی موجود تھے جنہوں نے بدلتے ہوئے فلمی رجحان اور سنیما کے ساتھ اپنے آپ کو منسلک رکھا اور اس نئے سنیما کے رجحان نے ایک دہائی تک پاکستانی فلم انڈسٹری کو مکمل طور پر تباہ ہونے سے بچائے رکھا۔ یہ پنجابی سنیما تھا جو 1979 میں فلم مولا جٹ کی ریلیز کے بعد وجود میں آیا۔ گو اچھے دنوں میں اردو فلمیں انڈسٹری کی توجہ کا محور تھیں لیکن پنجابی فلموں نے بھی کافی اچھا بزنس کیا تھا۔ لیکن 60 اور 70 کی دہائیوں میں بننے والی پنجابی فلمیں زیادہ تر رومانوی کہانیوں اور مدھر دھنوں پر مبنی ہوتی تھیں۔

مولا جٹ نے لیکن اس رجحان کو بدل ڈالا۔ اس فلم نے جس رجحان کو جنم دیا اس نے 60 کی دہائی میں بننے والی کم بجٹ کی مغربی اطالوی فلموں جو کہ اطالوی فلم ڈائریکٹر بناتے تھے ان کے کرداروں کی بلند ہمتی اور منہ پھٹ ہونے کی عادات کو پنجاب کے کلچر سے جوڑتے ہوئے ایک کردار بنایا اور فلموں کی کہانیاں پنجابی مقامی اور علاقائی ہیروز کے گرد گھومنے لگیں جو پنجاب کے دیہی علاقوں میں ظالموں سے ٹکراتے تھے۔

مولاجٹ کے ایکشن سے بھرپور مناظر، گانے اور عکسبندی 60 کی دہائی کی مغربی کلاسیک کاؤ بوائے فلموں سے ماخوز کی گئی تھی۔ بھارت میں یہ تجربہ ہدایتکار رمیش سپی پہلے ہی 1975 میں سپرہٹ فلم ’شعلے‘ بنا کے کر چکے تھے۔


یہ سچ ہے کہ (80 کی دہائی کے اختتام تک) مولا جٹ کی کامیابی اور اس کا کامیاب فارمولہ درجنوں پنجابی فلمیں بنانے کا باعث بنا جو سنجیدہ فلمیں دکھنے کے برعکس خود پنجابی سنیما کی مزاحیہ پیروڈی بننے کا باعث بن گئیں۔ یہاں تک کہ آج بھی پنجابی سنیما کے اس رجحان اور فارمولے کی پیروڈی بنائی جاتی ہے۔ اسے طنزو مزاح کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے مولا جٹ کے بعد بننے والی غیر معیاری فلموں نے اس کلاسک فلم کے ان پہلوؤں کو فراموش کروا دیا جو پاکستانی فلم انڈسٹری کو مکمل تباہی سے بچانے کا مؤجب بنے اور سینکڑوں خواتین اور مرد حضرات کا رزق فلم انڈسٹری سے وابستہ رکھنے کا باعث بنے۔ اور سچ یہ ہے کہ یہ فلم 80 کی دہائی کی دیگر پنجابی فلموں کی مانند محض بڑھکوں اور بے معنی پنجابی ڈائیلاگ اور لڑائیوں پر مبنی نہیں ہے۔ اس کے برعکس یہ کمرشل فلمسازی کے میدان میں ایک تخلیقی شاہکار ہے جس میں شاندار اداکاری، اچھا سکرپٹ، زبردست ڈائریکشن اور اچھے ڈائیلاگ دیکھنے کو ملتے ہیں۔

یہ فلم ایک نئے رجحان کو جنم دیتی ہے اور اس حقیقت سے آشنا بھی ہے۔ ٹھیک اس وقت جب انڈسٹری اپنے طویل زوال کا آغاز دیکھ رہی تھی، مولاجٹ شاندار بزنس کر کے ایک سپر ہٹ فلم بن گئی۔ اس کی باکس آفس کولیکشن اردو سنیما کی سب سے سپر ہٹ فلم آئینہ (1977) کے باکس آفس کولیکشن سے بھی زیادہ تھی۔ مولاجٹ نے نئی قسم کے پاکستانی فلم بینوں کا دل جیتا تھا۔ شہری مڈل کلاس سنیما آنا ترک کر چکی تھی اور اس کے بجائے سنیما میں شہری مزدور طبقہ اور دیہی علاقوں کے محنت کش طبقات فلمیں دیکھنے آنے لگے۔ جن میں سے زیادہ تر بھٹو کے دور حکومت (1971-1977) تک کے خیالات اور نظریات کے اسیر تھے  اور جن کے خاندانوں نے پاکستانی محنت کشوں کو خلیجی ریاستوں میں کام کرنے کی اجازت ملنے پر خوشحالی دیکھنی شروع کی تھی۔

اس فلم کے بارے میں اکثر یہ بھی فراموش کر دیا جاتا ہے کہ اس فلم میں ایک انقلابی اور تخریبی قسم کا کردار دکھایا گیا لیکن اس کے باوجود یہ فلم اس وقت کے بدترین آمرانہ دور اور اخلاقی پولیس کی موجودگی کے باوجود تمام سنیماؤں پر نمائش کیلئے پیش ہوئی۔

یہ کیسے ہوا؟

فلم میں عورتوں کے واہیات ڈانس کی بھرمار تھی لیکن اس کے ایکشن کے مناظر زبردست تھے اور ڈائیلاگ بیحد اچھے تھے جس کے باعث اس وقت کا ایک معمولی سا اداکار 41 سالہ سلطان راہی فلم انڈسٹری کا ایک مشہور ترین ہیرو بن گیا۔ سلطان راہی پاکستانی سنیما کے پہلے "اینگری ینگ مین" بھی بنے۔ اس فلم کے باعث ولن کا کردار ادا کرنے والے مصطفیٰ قریشی کو بھی انتہائی مقبولیت حاصل ہوئی۔ مصطفیٰ قریشی کا نوری نت کا کردار جو ایک پرتشدد مگر عقلمند شخص پر مبنی تھا یادگار بن گیا اور اس کے باعث 80 کی دہائی میں مصطفیٰ قریشی نے سلطان راہی کے مد مقابل اس قسم کے کردار لاتعداد فلموں میں نبھائے۔

فلم کا مرکزی خیال ایک غصیل نوجوان کے گرد گھومتا ہے جو ایک ظالم وڈیرے اور اس کے خاص کارندے نوری نت (جو ٹھنڈے مزاج کا حامل ہوتا ہے اور محض اس شخص سے لڑتا ہے جسے وہ اپنے غصے کے قابل سمجھے) کے مظالم کے خلاف لڑائی کا آغاز کرتا ہے۔ یہ مرکزی خیال شہری علاقوں کے مزدور پیشہ طبقات اور دیہی آبادی کے دلوں میں گھر کر گیا۔ اس فلم کو سینسر بورڈ سے باآسانی نمائش کی اجازت مل گئی تھی۔ لیکن جب پاکستانی ملازمت پیشہ اور محنت کش طبقات کی ایک بہت بڑی تعداد نے یہ فلم دیکھنے کیلئے سنیما گھروں کا رخ کیا تو سینسر بورڈ نے اچانک مداخلت کی اور فلم کے ڈائریکٹر سے کچھ مخصوص سین فلم سے نکالنے کیلئے کہا۔ اس فلم کے پروڈیوسر سرور بھٹی کے مطابق ضیاالحق کی حکومت اس وقت تک پنجاب کی وڈیرہ شاہی کے ساتھ دیہی علاقوں میں اچھے تعلقات قائم کر چکی تھی۔ اسے فلم دیکھ کر یہ لگا کہ جیسے یہ "اینٹی اسٹیبلشمنٹ" فلم ہے۔

مولا جٹ فلم کا اصل پوسٹر




سینسر بورڈ کے نزدیک فلم بین فلم کے کرداروں کو علامتی طور پر فیکٹری مالکان، چوہدریوں، وڈیروں اور پنجاب پولیس کے ساتھ تشبیہہ دے رہے تھے۔ سینسر بورڈ نے پروڈیوسر کو فلم میں ایڈیٹنگ کے ذریعے اس کے مناظر کاٹ کر اس کے پیغام کی شدت کو کم کرنے کا حکم دیا جسے بھٹی نے فوراً مان لیا۔ لیکن زیادہ تر سنیما مالکان کے پاس فلم کا اصل پرنٹ موجود تھا اور نئے سینسرڈ پرنٹ مہیا کیے جانے کے باوجود وہ اصل پرنٹ کے ساتھ بغیر سینسر فلم ہی سنیما گھروں میں چلاتے رہے۔

مولاجٹ دو سالوں تک سنیما سکرینوں پر چلتی رہی اور منافع کے نئے ریکارڈ بنانے میں کامیاب ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی یہ فلم انڈسٹری کو ڈوبنے سے بچانے میں بھی کامیاب رہی۔ سلطان راہی جو 80 کی دہائی میں باکس آفس کا سب سے بڑا اور مقبول ترین ہیرو بن کر ابھرا اور تن تنہا فلم انڈسٹری کے وجود کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہا اسے 1996 میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ پولیس کی رپورٹ کے مطابق سلطان راہی کو پنجاب ہائی وے پر اس وقت ڈاکوؤں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا جب وہ اپنی کار کا پنکچرڈ ٹائر تبدیل کرنے کیلئے رکا تھا۔ لیکن سلطان راہی کی موت کے بارے میں دو مختلف کہانیاں منظر عام پر آئیں۔

ایک کہانی کے مطابق سلطان راہی کو اس گروہ کے افراد نے گولیاں مار کر ہلاک کیا تھا جس سے اس کا زمین کے معاملے پر تنازعہ چل رہا تھا۔ جبکہ دوسری کہانی کے مطابق سلطان راہی جو مسیحی گھرانے میں پیدا ہوا تھا لیکن 60 کی دہائی میں مذہب تبدیل کر کے مسلمان بن گیا تھا، ایک بار پھر سے اپنا مذہب تبدیل کر کے واپس عیسائی بننا چاہتا تھا اور جن افراد کو اس بات کی بھنک پڑی انہوں نے اسے اس بنا پر قتل کر دیا۔ آج تک سلطان راہی کی موت ایک معمہ ہے جو مختلف کہانیوں اور قیاس آرائیوں میں گھرا ہوا ہے۔

سلطان راہی کو 1996 میں پراسرار انداز میں قتل کر دیا گیا۔