اسلام آباد ہائیکورٹ نے مارگلہ ہلز پر قائم معروف ریسٹورنٹ مونال کو آج ہی سیل کرنے اور کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کو نیوی گالف کلب کا قبضہ لینے کا حکم دے دیا۔
ساتھ ہی عدالت نے ملٹری ڈائریکٹوریٹ فارمز کا 8 ہزار ایکڑ اراضی پر دعویٰ بھی غیرقانونی قرار دیتے ہوئے حکم دیا کہ 8 ہزار ایکڑ زمین مارگلہ نیشنل پارک کا حصہ سمجھی جائے۔
ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں غیرقانونی تعمیرات اور تجاوزات کے خلاف کیسز پر سماعت کی۔
سماعت کے آغاز میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وزیراعظم کے مشیر برائے موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم کا کورونا ٹیسٹ مثبت آ گیا ہےاس لیے وہ پیش نہیں ہو سکے۔
عدالت نے سیکریٹری موسمیاتی تبدیلی کو مخاطب کرکے کہا کہ کیا آپ کا کام صرف درخت لگانا ہے، وزارت نے خود مانا ہے کہ ریاست کی زمین پر پرائیویٹ لوگوں نے تجاوزات کیں، یہ عدالت کیا کرے، جو کچھ ہو رہا ہے حیران کن ہے۔
سیکریٹری داخلہ سے مکالمے میں چیف جسٹس نے کہا کہ اس 14 سو مربع میل میں لاقانونیت ہے، مسلح افواج کے 3 سیکٹرز بن گئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ مسلح افواج کو کسی طور متنازع نہیں ہونا چاہیے، یہ عوامی مفاد میں نہیں، قانون میں موجود ہے کہ مسلح افواج کی زمینیں کیسے اور کون مینیج کرے گا، یہ عدالت کسی کو مسلح افواج کو متنازع نہیں بنانے دے گی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ نیشنل پارک ایریا محفوظ شدہ علاقہ ہے، اس میں کوئی سرگرمی نہیں ہو سکتی، نیشنل پارک ایریا میں کوئی گھاس بھی نہیں کاٹ سکتا۔
عدالت کا کہنا تھا کہ جس زمین کا کوئی استعمال نہیں، وہ کہاں جائے گی یہ طے کرنا ایگزیکٹو کا اختیار ہے، اور ایگزیکٹو نہیں بلکہ قانون طے کرے گا، کوئی پراپرٹی کسی ادارے کے نام پر نہیں ہو سکتی۔
چیف جسٹس ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ مونال کی 8 ہزار ایکڑ زمین کا دعویٰ کون کر رہا ہے؟ اس عدالت کو نیشنل پارک کا تحفظ کرنا ہے، وہ 8 ہزار ایکڑ زمین اب نیشنل پارک ایریا کا حصہ ہے، جسے اب 1979 کے قانون کے تحت مینج کیا جائے گا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ مسلح افواج خودمختار ادارے نہیں ہیں، تمام آرمڈ فورسز کو وزارت دفاع کنٹرول کرتی ہے اور سیکریٹری دفاع یہاں موجود ہیں۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ پاکستان نیوی نے تجاوزات کر کے گالف کورس بنایا جو اچھی بات نہیں، ہر شہری مسلح افواج کی عزت کرتا ہے، اگر وہ یہ کریں گے تو اچھا پیغام نہیں جائے گا۔
عدالت کا کہنا تھا کہ ہمیں سب سے پہلے اپنا احتساب کرنا ہے، لاقانونیت کی وجہ سے غریب غریب رہ گیا ہے۔
چیف جسٖٹس نے سیکریٹری دفاع کو حکم دیتے ہوئے کہا کہ آپ نے خود تسلیم کیا ہے کہ گالف کورس غیرقانونی ہے، گالف کورس کی زمین آج ہی سی ڈی اے کے حوالے کریں۔
دورانِ سماعت چیئرمین سی ڈی اے نے بتایا کہ ہم نے نیوی کو سیلنگ کلب گرانے کا نوٹس دے دیا ہے، پنجاب حکومت بھی کچھ زمینوں کا دعویٰ کرتی ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ نیشنل پارک کو ریگولرائز کر کے تباہ کر دیا گیا، جو پارک باقی رہ گیا ہے اس کو کس طرح بچایا جا سکتا ہے، نیشنل پارک ایریا کا تحفظ ہماری آئندہ نسلوں کے لیے ضروری ہے۔
سیکریٹری داخلہ نے کہا کہ نافذ قوانین پر عملدرآمد کروا کر ہی مارگلہ نیشنل پارک کو بچایا جا سکتا ہے، عملدرآمد کا نظام نہ ہونے پر حکومت کی رٹ بھی کمزور ہوئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عدالت تو باہر جا کر عملدرآمد نہیں کروا سکتی، عملدرآمد کرانا تو وفاقی حکومت کا کام ہے، اشرافیہ مارگلہ نیشنل پارک کو تباہ کر رہے ہیں، غریب آدمی تو وہاں کچھ نہیں کر سکتا۔
ساتھ ہی عدالت نے سیکریٹری داخلہ سے استفسار کیا کہ آپ وفاقی حکومت ہیں کیا وفاقی حکومت بے بس ہے؟
چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ نیشنل پارک کی زمین کی نشاندہی کون کرے گا؟ جس پر چیئرمین سی ڈی اے نے بتایا کہ ڈسٹرکٹ کلیکٹر یہ نشاندہی کرے گا جس کی معاونت سروے آف پاکستان اور ڈپٹی کمشنر آفس کرے گا۔
اس موقع پر سیکریٹری دفاع نے نشاندہی کی کہ دیہات اور گاؤں کی جانب سے بھی تعمیرات اور تجاوزات ہو رہی ہیں۔
چیئرمین سی ڈی اے نے عدالت میں کہا کہ غور و خوض کے بغیر ماسٹر پلان میں تبدیلیاں کی جاتی رہیں، ہر ادارے نے کہیں نہ کہیں تجاوزات کی ہوئی ہیں، آج کابینہ کے سامنے بھی یہ پوائنٹ رکھا جائے گا۔
اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس ہائی کورٹ نے کوئی تجاوزات تو نہیں کیں، جس پر چیئرمین سی ڈی اے نے کہا کہ نہیں اس عدالت نے کوئی تجاوزات نہیں کیں۔
چیئرمین سی ڈی اے نے کہا کہ قانون جیسا بھی ہو اس پر عملدرآمد ہونا ضروری ہے، ہم نے تجاوزات کے خلاف اداروں کو نوٹسز جاری کر دیے ہیں، جب حکومت کے ادارے تجاوزات سے ہٹ جائیں گے تو کسی اور کی بھی ہمت نہیں ہو گی۔
ساتھ ہی عدالت نے مونال ریسٹورنٹ کو آج ہی سیل کرنے کا حکم دیتے ہوئے چیف کمشنر اسلام آباد کو ہدایت کی کہ آج ہی جا کر مونال کو سیل کریں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ عدالت وسیع عوامی مفاد کا تحفظ کرے گی، ہم سب کے سر شرم سے جھکنے چاہئیں کہ یونان کے شخص نے آ کر ماحول کے تحفظ پر کام کیا۔
اس پر سیکریٹری موسمیاتی تبدیلی نے تجویز پیش کی کہ اسلام آباد کا ماسٹر پلان پبلک ہونا چاہیے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ آپ کے تین فورسز کے سیکٹرز میں بھی تمام قوانین لاگو ہوتے ہیں، کیا عمل ہو رہا ہے؟ ایئر فورس نے جتنی تعمیرات کیں، کیا سی ڈی اے سے منظوری لی؟
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ ان کے کچھ سیکیورٹی تحفظات ہوں، سیکریٹری دفاع موجود ہیں، ان کے تحفظات بھی سن لیں اور قانون پر سختی سے عمل درآمد کرائیں۔
عدالت عالیہ نے حکم دیا کہ مونال کی لیز ختم ہو چکی ہے تو اسے سیل کریں، ساتھ ہی تحفظ ماحولیات کے ادارے کو تعمیرات سے ہونے والے نقصان کا تخمینہ لگا کر رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔
علاوہ ازیں اسلام آباد ہائی کورٹ نے سی ڈی اے کو آج ہی نیوی گالف کورس کا قبضہ لینے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ سیکرٹری دفاع نیوی گالف کورس کی تجاوزات کی انکوائری کرائیں اور ذمہ داران کے خلاف کارروائی کریں۔
عدالت نے مارگلہ ہلز نیشنل پارک کی نشاندہی جلد مکمل کرنے اور ملٹری ڈائریکٹوریٹ فارمز کا 8 ہزار ایکڑ اراضی پر دعویٰ بھی غیرقانونی قرار دیتے ہوئے حکم دیا کہ 8 ہزار ایکڑ زمین مارگلہ نیشنل پارک کا حصہ سمجھی جائے۔
عدالت نے سیکرٹری دفاع کو اس بات کو یقینی بنانے کی ہدایت کی کہ مسلح افواج کے تینوں سیکٹرز میں بھی کوئی غیر قانونی تعمیر نہ ہو، ساتھ ہی سیکریٹری دفاع اور چیف کمشنر کو کہا کہ یقینی بنائیں اب کوئی شکایت عدالت میں نہ آئے۔