نیوی سیلنگ کلب کو سیل کرنے کے احکامات میں توسیع: آئین میں کہاں کمرشل بزنس کی اجازت ہے؟

نیوی سیلنگ کلب کو سیل کرنے کے احکامات میں توسیع: آئین میں کہاں کمرشل بزنس کی اجازت ہے؟
 

راول ڈیم کے کنارے نیوی سیلنگ کلب اور نیول فارمز کے خلاف کیسز کی سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کی۔ پاکستان نیول فارمز کے وکیل ملک قمر افضل، نیول چیف کی طرف سے اشتراوصاف ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔

اس موقع پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہاں پر کوئی قانون کی حکمرانی نہیں۔ جو پٹیشن یہ عدالت اٹھاتی ہے اس میں نظر آتا ہے قانون صرف کمزور کے لیے ہے۔ سی ڈی اے، ریونیو ڈیپارٹمنٹ، متعلقہ ایس ایچ او سب ملوث ہوتے ہیں۔

انہوں نے سی ڈی اے وکیل  کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کیوں نہیں ہمت کر کے کہتے کہ آپ قانون پر عمل درآمد نہیں کرا سکتے۔ نیشنل پارک اور شہر کی انوائرمنٹ کو تباہ کردیا گیا۔آپ نے اگر ریکارڈ روم تک محدود رہنا ہے تو اس کو بند کر دیں۔ ماحولیات کو تباہ کر دیا اور اس کام کے لیے سٹیٹ مشینری استعمال ہوتی ہے۔ ہماری آئندہ کی نسلیں اس کی قیمت چکائیں گیہر روز ایک نئی پٹیشن آتی ہے کہ قانون پر عمل نہیں ہو رہا۔ جس کا کھوکھا ہوتا ہے اس کو نوٹس دیے بغیر وہ گرا دیتے ہیں۔

جو بھی غیر قانونی کام کرے اس کی تعمیرات گرا دیں تو آئندہ کوئی کام نہیں کرے گا۔ اس موقع پر نیول چیف کے وکیل اشتر اوصاف نے کہا کہ لاہور میں ایسا کیا گیا تھا مگر بعد میں پھر وہی کام شروع ہو گیا۔ اس حوالےسے زینب جنجوعہ نے کہا کہ نیول فارمز میں عدالت کے روکنے کے باوجود تعمیرات جاری ہیں۔ عدالت اس بات کی اجازت نہیں دے گی کہ اس عدالت کے حکم کی خلاف ورزی ہو۔ اس موقع پر فارمز کے وکیل نے کہا کہ عدالت کو یقین دہانی کراتا ہوں کہ عدالتی احکامات کی خلاف ورزی نہیں ہو گی، یہ کمرشل وینچر نہیں ہے، اس متعلق غلط فہمی ہے۔

یہ یونیفارم کی انسلٹ ہو گی اگر ہم عدالتی حکم کی خلاف ورزی پر توہین عدالت کی کارروائی کریں گے۔ آپ آئین دکھائیں کہ کہاں کمرشل بزنس کی اجازت ہے؟ اس موقع پر اشتر اوصاف نے کہا کہ سیلنگ سینٹر کھول کر بوٹس کی سروس کی اجازت دے دی جائے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو صرف ریپئرنگ کی کام کی اجازت ہو گی، کیس کی مزید سماعت ستمبر کے دوسرے ہفتے تک ملتوی کر دی گئی۔