کورٹ روم نمبر ون کی سیڑھیوں کے پاس پہنچا تو دو لوگوں نے بھاگتے ہوئے میرے پاس سے گزرتے ہوئے سیڑھیاں چڑھنی شروع کر دیں اور جلد ہی نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہنچا تو ان دونوں کو پولیس اہلکاروں نے روک رکھا تھا اور وہ بحث کر رہے تھے کہ انہوں نے بیرسٹر شہزاد اکبر کو پانی کی بوتل پہنچانی ہے جو ان کے ہاتھ میں موجود تھی۔ پولیس اہلکار کہہ رہے تھے کہ تھوڑا تحمل کر لیں، ویسے بھی کمرہ عدالت میں کھانے پینے کی کوئی چیز لے جانے کی اجازت نہیں۔ اس بحث کے دوران کمرہ عدالت کے باہر موجود بیرسٹر شہزاد اکبر کا ایلیٹ فورس کا گارڈ بھی آ کر مکالمے میں شامل ہو گیا اور دونوں کو اندر جانے کی اجازت دلوائی۔
یہ سب دیکھ کر موبائل فون باہر لیڈی اہلکار کے پاس جمع کروائے اور ٹوکن جیب میں ڈالتے کمرہ عدالت میں داخل ہو گیا۔ پچھلی سماعت ایک جج کے قرنطینہ میں ہونے کی وجہ سے ملتوی ہوئی تھی، اس لئے سب سے پہلے ججز کی کرسیاں گنیں تو وہ پوری دس تھیں اور ایکسپریس ٹربیون کے سینیئر صحافی حسنات ملک بھی آ کر گنتی میں شامل ہو چکے تھے۔ پچھلی سماعتوں کے برعکس آج تمام ججز کی نشستوں میں چھ فٹ کا فاصلہ رکھا گیا تھا اور یوں کورٹ روم نمبر ون میں ججز کے بیٹھنے والا مقام پوری طرح ججز کی نشستوں سے بھر چکا تھا۔
گذشتہ کارروائی کا احوال: ’ہم صرف یہ دیکھ رہے ہیں کہ آپ کی بدنیتی تھی یا نہیں؟‘ قاضی فائز عیسیٰ ریفرنس وینٹی لیٹر پر
کمرہ عدالت میں بیرسٹر شہزاد اکبر ایک ساتھی وکیل کے ساتھ اکیلے بیٹھے تھے جب کہ خلاف توقع کورٹ روم نمبر ون مکمل خالی تھا۔ 11:10 پر حکمران تحریک انصاف کی ایم این اے ملیکا بخاری بھی آ کر بیٹھ گئیں اور 11:20 پر بیرسٹر فروغ نسیم نے اپنے چار معاونین کے ساتھ انٹری دی۔ آج ججز نے انتظار نہیں کروایا اور 11:32 پر آواز لگی کورٹ آ گئی ہے۔
وفاق کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم روسٹرم پر ہی موجود تھے اور 10 رکنی فل کورٹ بیٹھ گئی تو سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے بیرسٹر فروغ نسیم کو مخاطب کر کے ججز کا موڈ بتا دیا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ فروغ نسیم صاحب آج آپ اپنی مرضی کے مطابق دلائل دیں، آپ کا دیا ہوا سوالنامہ ہم نے پڑھ لیا ہے جس میں سے بہت سے متعلقہ نہیں ہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال کا مزید کہنا تھا کہ آپ نے ایسٹ ریکوری یونٹ کا بتایا کہ وہ رولز آف بزنس کے مطابق جائز ہے تو اس پر دو سے تین مزید مثالیں دیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے بیرسٹر فروغ نسیم کو ہدایت کی کہ وہ آج بددیانتی اور کوڈ آف کنڈکٹ پر بھی دلائل دیں۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ سر اصل مقدمہ ہی کوڈ آف کنڈکٹ کا ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے لقمہ دیا کہ بالکل بتائیں ہم سننے کو تیار ہیں۔
بیرسٹر فروغ نسیم نے دلائل کا باقاعدہ آغاز کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس فائز عیسیٰ کا پورا کیس یہ ہے کہ بیوی بچے میرے زیر کفالت نہیں، اس لئے میں ان کا جوابدہ نہیں ہوں۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے فل کورٹ کی توجہ دلائی کہ ریفرنس کی بنیاد تین دستاویزات ہیں۔ ایک آرٹیکل 209، دوسری ججز کا کوڈ آف کنڈکٹ اور تیسری سپریم جوڈیشل کونسل کے رولز آف پروسیجر 2005۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے کا مزید کہنا تھا کہ آرٹیکل 209 میں لفظ مس کنڈکٹ تو استعمال ہوا ہے لیکن مس کنڈکٹ کیا ہے اس کی وضاحت نہیں کی گئی۔ بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 209 یہ نہیں کہتا کہ بڑی خلاف ورزی ہی مس کنڈکٹ کے زمرے میں آئے گی۔ بیرسٹر فروغ نسیم کا مؤقف تھا کہ آرٹیکل 209 میں کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کا لفظ جان کر استعمال نہیں کیا گیا تاکہ کوڈ آف کنڈکٹ اور دیگر قوانین سے مدد لی جا سکے۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے سابق چیف جسٹس اے آر کارنیلس کا ایک فیصلہ پڑھتے ہوئے بتایا کہ جسٹس کارنیلس نے طے کر دیا تھا کہ کسی بھی قانون یا رولز کی خلاف ورزی مس کنڈکٹ شمار ہوگا۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے دلیل دی کہ مس کنڈکٹ ارادی یا غیر ارادی بھی ہو سکتا ہے۔ یہ ذمہ داریوں کی ادائیگی یا قانون پر عملدرآمد کے دوران بھی ہو سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: ریفرنس بدنیتی پر مبنی ہے؟ مواد غیرقانونی طور پر اکٹھا کیا گیا؟ ججز کے فروغ نسیم سے سوالات
آئین کے آرٹیکل 209 سے آگے بڑھ کر اب بیرسٹر فروغ نسیم نے سپریم کورٹ کے ججز کا کوڈ آف کنڈکٹ 2009 کھولا تو جسٹس مقبول باقر نے اشارہ کیا کہ یہ کہتا ہے جج کو برے کردار کا نہیں ہونا چاہیے۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ یہ کوڈ آف کنڈکٹ حضرت عمر اور حضرت علی کو ذہن میں رکھتے ہوئے تشکیل دیا گیا کہ قاضی وقت کو کیسا ہونا چاہیے۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے کوڈ آف کنڈکٹ کی جگہ مذہب کا مزید سہارا لیتے ہوئے کہا کہ یہ عدالت خلفاؑ راشدین سے یقیناً بڑی شخصیات پر مشتمل نہیں۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے مذہب کا استعمال جاری رکھتے ہوئے دلیل دی کہ اسلام میں عوام کا اعتماد قاضی میں وضع کر دیا گیا تھا اور میری نظر میں یہ عدالتیں مقام مقدس ہیں۔ اب بیرسٹر فروغ نسیم نے پاکستان کی تخلیق اور مذہب کا مشترکہ تڑکہ دیا کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے تو انصاف کے لئے جج کو بھی قوم کی اسلامی امنگوں پر پورا اترنا ہوگا۔
سب صحافی حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے کہ سپریم کورٹ کے وضع کردہ کوڈ آف کنڈکٹ میں اس سب کا ذکر کہاں ہے؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے مختلف قوانین کا حوالہ دے کر کہا کہ ریفرنس ملک کے کسی بھی قانون کی خلاف ورزی پر بن سکتا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے آئین پاکستان کی سبز کتاب ہاتھ میں پکڑ کر ریمارکس دیے کہ آئین تمام قوانین کو جنم دیتا ہے اور ان کو زندگی بھی دیتا ہے لیکن آپ کی تشریح سے لگ رہا ہے، آئین اپنے ہی تشکیل دیے گئے قوانین کے تابع ہے۔ جسٹس منیب اختر نے آبزرویشن دی کہ ججز کے مس کنڈکٹ کو آئین میں وضع کردہ معیار پر پرکھا جائے گا ان اضافی ایکٹس اور آرڈیننسز پر نہیں۔ جسٹس منیب اختر نے بیرسٹر فروغ نسیم کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ یہ رولز آف بزنس سے مس کنڈکٹ مت نکالیے۔
بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ جج کا عہدہ دراصل پبلک آفس ہے اور چاہے بیوی ان کے زیر کفالت ہے یا نہیں لیکن کیونکہ بیوی ایک بہت ہی قریبی رشتہ ہے، اس لئے جج صاحب کو ان کا جواب دینا ہوگا۔ بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ 2019 کا ایکٹ کہتا ہے کہ اگر آپ پبلک آفس ہولڈر ہیں تو آپ اپنے زیر کفالت بچوں اور بیوی کی جائیدادیں ظاہر کرنے کے پابند ہیں۔ جسٹس مقبول باقر نے سوال پوچھا کہ کیا جج کا دفتر اس قانون کے دائرے میں آتا ہے؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ 2018 کی ایمنسٹی اسکیم کا ایکٹ کہتا ہے کہ جج پبلک آفس ہولڈر ہے اور یہ جج اور بیوی میں فرق نہیں کرتا۔
دس رکنی فل کورٹ کے سربراہ عمر عطا بندیال نے سوال کیا کہ ایمنسٹی سکیم کا اس کیس سے کیا تعلق ہے؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ چونکہ جج صاحب کہتے ہیں کہ مجھ سے نہیں، بیوی بچوں سے سوال پوچھو۔ جسٹس مقبول باقر نے سوال اٹھایا کہ کیا جج یا ان کے اہلخانہ نے ایمنسٹی سکیم میں اپلائے کیا تھا؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے جواب دیا کہ یہ سوالات سپریم جوڈیشل کونسل کو جج سے پوچھنے دیں۔
جسٹس مقبول باقر نے آبزرویشن دی کہ اگر آپ جو کہہ رہے ہیں، وہ اصول طے ہوگیا تو کل کو کوئی بھی اٹھ کر سپریم جوڈیشل کمیشن کے دروازے پر دستک دے گا کہ فلاں جج سے سوال کا جواب لے کر دیں۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے جسٹس مقبول باقر کو بیک فٹ پر کرنے کے لئے فوری جواب دیا کہ اگر آج یہ مان لیا کہ جج جوابدہ نہیں تو یہ بہت نقصان دہ اصول طے ہو جائے گا۔ جسٹس مقبول باقر نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا کہ ہم نہیں کہہ رہے کہ جج جوابدہ نہیں ہے لیکن جج جوابدہ ہوگا تو کسی قانون کے تحت ہوگا۔ جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ آپ پہلے بیوی بچے جج کے زیرِ کفالت ثابت کریں پھر جواب مانگیں۔
یہ بھی پڑھیے: کیا عدالت کہہ سکتی ہے کہ جنابِ صدر آپ نے ہمیں غلط ریفرنس بھیجا، ججز کا فروغ نسیم سے سوال
بیرسٹر فروغ نسیم نے اس موقع پر پانامہ کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایک جج کے بیوی بچوں کے نام پر لندن میں تین مہنگی جائیدادیں ہیں اور جب یہ جائیدادیں خریدی گئیں تو بچے طالبعلم تھے، اس لئے کن ذرائع سے یہ جائیدادیں خریدی گئیں؟ بیرسٹر فروغ نسیم کا مزید کہنا تھا کہ ایسا ہی سوال پانامہ پیپرز میں سابق وزیر اعظم نواز شریف سے پوچھا گیا تھا تو انہوں نے بھی جواب دینے سے انکار کر دیا تھا۔
جسٹس مقبول باقر نے بیرسٹر فروغ نسیم کو ٹوکتے ہوئے ریمارکس دیے کہ دو مقدمات کا یوں موازنہ نہیں ہو سکتا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس مقبول باقر کے ریمارکس کی وضاحت کر دی کہ پانامہ پیپرز اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے مقدمات کا موازنہ کیوں نہیں ہو سکتا۔ فل کورٹ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ اگر ایک جج کی اہلیہ کی اپنی اچھی خاصی آمدن ہے اور وہ خود مختار ہیں، وہ اپنے پیسوں سے لندن میں جائیدادیں خرید لیتی ہیں تو اس میں جج صاحب کیسے جوابدہ ہو سکتے ہیں۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے بتاتا چلوں کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ ایک بڑے زرعی رقبے کی مالک ہیں جہاں سے انہیں اچھی خاصی آمدن ہوتی ہے۔ جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ ان معاملات کے لئے ایف بی آر کا متعلقہ فورم موجود ہے، حکومت کو اس سے رجوع کرنا چاہیے۔
بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ جج کہتا ہے وہ جوابدہ نہیں ہے۔ اس موقع پر اب تک خاموش جسٹس سجاد علی شاہ نے قدرے برہمی سے ریمارکس دیے کہ جج بالکل نہیں کہہ رہا کہ میں جواب نہ دوں گا، بلکہ وہ کہہ رہا ہے کہ سوال کسی قانون کے تحت پوچھیں۔
بیرسٹر فروغ نسیم نے اب بیوی کو جج کا زیر کفالت بتانے کے لئے اپنی پوزیشن تبدیل کرتے ہوئے نئی دلیل دی کہ 205 کا 4th شیڈول کہتا ہے کہ جج کے انتقال کی صورت میں جج کی بیوی اس کی پینشن کی حقدار ہوگی۔ بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ یہاں پر یہ تو نہیں لکھا کہ جج کی بیوی زیرِ کفالت ہوگی تو ہی پینشن کی حقدار ہوگی۔ بیرسٹر فروغ نسیم کا مزید کہنا تھا کہ اگر جج کی بیوی پینشن کی حقدار ہو سکتی تو وہ جوابدہ بھی ہوگی۔
جسٹس منیب اختر نے اپنے چہرے سے ماسک تھوڑا نیچے سرکاتے ہوئے طنزیہ لہجے میں بیرسٹر فروغ نسیم کو کہا کہ وکیل صاحب آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ ذرا اس سے اگلی شق بھی پڑھیں۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ آگے لکھا ہے کہ جج کی بیوی تب تک پینشن لے سکتی ہے جب تک دوسری شادی نہ کر لے۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آپ نے اپنی دلیل کو خود ہی رد کردیا ہے کیونکہ اگر جج کی بیوی دوسری شادی کر سکتی ہے تو مطلب وہ خود مختار ہے، پینشن لینے سے جج کی زیر کفالت نہیں بن گئی۔
بیرسٹر فروغ نسیم نے اس دلیل سے پسپائی کے بعد 2009 کے ججز پینشن کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس میں کہا گیا کہ ججز کو بھی مراعات وفاقی سیکرٹریوں کے مطابق ملیں گی۔ بیرسٹر فروغ نسیم کا مزید کہنا تھا کہ اگر پبلک آفس ہولڈر کی اہلیہ مراعات لے سکتی ہے تو جوابدہی بھی ہوگی۔ اس کے بعد بیرسٹر فروغ نسیم نے گورنمنٹ سرونٹ کنڈکٹ رولز 2005 کا مطالعہ شروع کر دیا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال پوچھا کہ یہ تمام رولز سرکاری ملازمین کی مراعات سے متعلق ہیں، ان کا جج کے کیس سے کیا تعلق ہے؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ اگر آپ ججز مراعات لیتے ہیں تو جوابدہ بھی ہونا پڑے گا۔ جسٹس مقبول باقر نے سوال اٹھایا کہ لیکن ریفرنس تو ٹیکس کے سیکشن 116 کی خلاف ورزی کا ہے، اس پر آپ کا کیا کہنا ہے؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ میں اس پر آگے چل کر پوری معاونت کروں گا۔
سماعت اپنے مقررہ وقت سے 20 منٹ اوپر جا چکی تھی تو فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے گھڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انتہائی اہم سوالات وفاقی حکومت کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم کے سامنے رکھتے ہوئے ریمارکس دیے کہ فروغ نسیم ہم سپریم جوڈیشل کونسل کے کام میں مداخلت نہیں کر رہے لیکن آپ ہمیں جواب دیں کہ کیسے یہ ریفرنس بدنیتی سے داغدار نہیں اور معلومات غیر قانونی طور پر جاسوسی کر کے جمع نہیں کی گئیں۔ دس رکنی فل کورٹ کے سربراہ عمر عطا بندیال نے اس موقع پر اہم آبزرویشن دی کہ وہ کہنا نہیں چاہتے لیکن اگر معلومات اکٹھی کرنے کے پیچھے بدنیتی تھی تو پھر اس کا مطلب ریفرنس دائر کرنے کے پیچھے وجہ کوئی اور تھی۔
بیرسٹر فروغ نسیم نے انتہائی اطمینان سے جواب دیا کہ آپ کا اشارہ فیض آباد دھرنا کیس کی جانب ہوگا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے سر ہلا کر ہاں میں جواب دیا ہی تھا کہ جسٹس مقبول باقر نے حکومتی قانونی ٹیم پر انتہائی مہلک وار کیا کہ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ 90 کی دہائی میں ایک منتخب حکومت کو ججز کی جاسوسی پر گھر بھیج دیا گیا تھا۔ جسٹس مقبول باقر کا اشارہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی دوسری حکومت کی طرف تھا جن کو گھر بھیجنے کی جو چارج شیٹ اس وقت کے صدر فارق لغاری نے سنائی تھی اس میں ایک الزام ججز کی جاسوسی بھی تھا۔ سماعت کل صبح 10:30 بجے تک ملتوی کر دی گئی ہے۔