قومی اسمبلی میں قانون سازیوں کی بھرمار لیکن اپوزیشن کلبھوشن یادیو اور الیکشن ترمیمی بل پربرہم کیوں؟

قومی اسمبلی میں قانون سازیوں کی بھرمار لیکن اپوزیشن کلبھوشن یادیو اور الیکشن ترمیمی بل پربرہم کیوں؟
حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف جب سے اقتدار میں آئی ہے  درجنوں قوانین آرڈیننس کے زریعے ایوان سے پاس کرتی آئی ہے ۔ ایک طرف وزیر اعظم ایوان سے غیر حاضر تو دوسری جانب قانون سازی کے عمل میں اپوزیشن کو اعتماد میں نہ لینا موجودہ حکومت کا طریقہ واردات بن چکا ہے۔ گزشتہ کئی روز سے ایوان میں تلخی ہے جبکہ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان  اگر ایک طرف لفظی جنگ  جاری ہے تو دوسری جانب پارلیمان میں غیر مہذب نعرہ بازی اور ناشائستہ گفتگو بھی ایوان میں  زوروں پر ہے۔

جمعرات کے روز جب قومی اسمبلی کا اجلاس دوپہر چار بجے شروع ہوا تو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سمیت پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری اور مسلم لیگ نواز کے احسن اقبال اپنے سیٹوں پر براجمان ہوگئے اوراسی نکات پر مشتمل ایجنڈہ اسمبلی اجلاس کا حصہ تھا۔

حکومت نے جمعرات کے روز تاریخی قانون سازی کرتے ہوئے  ایوان میں 21 بل سمیت درجنوں ترامیم منظور کیں جن میں  ہندوستانی ایجنٹ کلبھوشن یادیو  کی سزا کیخلاف نظرثانی اپیل کا بل ، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ ڈالنے  کا حق ، الیکشن کیلئے  الیکٹرانک مشینوں کا استعمال، ذخیرہ اندوزی کے خاتمے ، خواتین ، بچوں سے زیادتی کے جرائم کی داد رسی کے بلز، اور 11 تحاریک بھی ایوان سے منظور کی گئی جس پر اپوزیشن نے احتجاج کرتے ہوئے سپیکر ڈسک کا گھیراؤ کیا اور کلبھوشن کے جو یار ہے غدار ہے غدار ہے کے نعرے لگائے۔

قومی اسمبلی نے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کو مؤثر بنانے کے لیے عالمی عدالت انصاف (نظر ثانی و غور) بل 2020 کثرت رائے سے منظور کر لیا ہے۔ اس بل کی سینیٹ سے حتمی منظوری اور صدر مملکت کے اس پر دستخط کے بعد بھارت کے مبینہ جاسوس کلبھوشن جادھو سمیت پاکستان میں قید فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے تمام غیر ملکی قیدیوں کو فوجی عدالتوں کی سزا کے خلاف اپیل کا حق مل جائے گا اور وہ ہائی کورٹ سے رجوع کر سکیں گے۔

اپوزیشن نے بل کے معاملے پر حکومت کے ساتھ تعاون کرنے سے صاف انکار کرتے ہوئے بل کے خلاف ووٹ دیا۔ تاہم، حکومتی اکثریتی ایوان نے اپوزیشن کے احتجاج کے باوجود اس بل کو منظور کر لیا۔ اجلاس کے دوران اپوزیشن ارکان نے اس بل کو عجلت میں پاس کرانے کا الزام عائد کیا۔

اس بل کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس بل پر ردوعمل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ کلبھوشن  جادھو کو اگر این آر او دینا ہی تھا تو اپوزیشن سے مشاورت ہی کرلیتے۔ بلاول کی اس تقریر پر وزیر خارجہ نے سخت گیر موقف اختیار کرتے ہوئے حزب اختلاف پر بھارت نواز ہونے کا الزام لگایا جس کے بعد ایوان میں ہنگامہ آرائی ہوئی۔

حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کے احسن اقبال کا کہنا تھا کہ پہلے سے قانون موجود ہے کہ ہائی کورٹس میں فوجی عدالتوں کی سزاؤں کے خلاف اپیل ہو سکتی ہے، ہم محب وطن لوگوں سے ووٹ لے کر آئے ہیں، ہم یہ اجازت نہیں دیں گے کہ اس مقدس ایوان میں جاسوس کے لیے خصوصی قانون سازی کی جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کس طریقے سے یہ قانون سازی کر رہی ہے، آج ایک بھارتی جاسوس کے لئے قانون بنایا جا رہا ہے۔ ہم اس سوچ کو کسی صورت سپورٹ نہیں کریں گے۔احسن اقبال نے کہا کہ  آج کا ایجنڈا دیکھ کر اندازہ ہوا کہ حکومت کی طرف سے کچھ دال میں کالا ہے۔ ایجنڈے کے ستاون نمبر پر بھارتی جاسوس کلبھوشن جادھو کے لیے قانون منظوری کرایا جارہا ہے۔

وزیر قانون فروغ نسیم نے احسن اقبال کی تقریر کے جواب میں ایوان کو بتایا کہ لیگی رہنما جو بات کر رہے ہیں وہ بھارت چاہتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں آپ نے عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ نہیں پڑھا اور اگر پڑھ رکھا ہے تو مجھے بہت حیرت ہے کہ آپ کی بات کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پہلے سے قانون موجود ہے کہ ہائی کورٹس میں فوجی عدالتوں کی سزاؤں کے خلاف اپیل ہو سکتی ہے۔

قانون سازی کے سلسلے میں انتخابات ایکٹ 2017ء میں مزید ترمیم کا بل پیش کیا گیا جو کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔ انتخابات ایکٹ میں دو ترمیمی بل منظور کئے گئے ہیں۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو حق رائے دہی اور الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں و انتخابی حلقوں سے متعلق اصلاحات نافذ کی جارہی ہیں۔ اس بل کے تخت سمندر پار پاکستانیوں ایک طرف ووٹ کا حق ڈالنے کے اہل ہونگے جبکہ دوسری جانب الیکشن میں الیکٹرانک مشینوں کا استعمال بھی شامل ہوگا۔

اس بل پرایوان میں ہنگامہ ہوا کیونکہ حزب اختلاف سمجھتی ہے کہ حکومت 2023 کے عام انتخابات میں الیکشن پر ڈاکہ ڈالنا چاہتی ہے اور 2018 کی طرح آر ٹی ایس جیسا معاملہ دوبارہ ہوسکتا ہے۔ اپوزیشن کی ہنگامہ آرائی کے بعد دوبارہ وزیر خارجہ شاہ محمود تقریر کرنے کے لئے کھڑے ہوئے اور اپوزیشن پر گولہ باری کرتے ہوئے کہا کہ خود کو جمہوری جمہوری کہنے والے اب  قانون سازی میں رکاوٹیں ڈال رہی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے وزیر خارجہ کی تقریر پر موقف اپناتے ہوئے کہا کہ ہم ترامیم کے خلاف نہیں لیکن بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لئے ایک حلقہ بنایا جائے اور وہی سے ان کا نمائندہ منتخب ہو۔ احسن اقبال نے موقف اپناتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت نے 45 صفحات پر مشتمل ترامیم اور نکات بنائے ہیں مگر اس کو نئے قانون سازی میں بلڈوز کیا گیا۔

قومی اسمبلی نے اس کے ساتھ ساتھ دیگر قانون سازیاں بھی منظور کیں جن میں  مسلم عائلی قوانین (ترمیمی) بل ، کوویڈ 19 (امتناع ذخیرہ اندوزی) بل ،کاروباری تعمیر نو کمپنیات (ترمیمی) بل، ایس بی پی بینکنگ سروسز کارپوریشن (ایس بی پی بی ایس سی)(ترمیمی) بل، 2020ء پاکستان اکادمی ادبیات (ترمیمی) بل ،فوجداری قانون (ترمیمی) بل 2021ئکی منظوری دے دی۔ مسلم عائلی قوانین (ترمیمی) بل ، عالمی عدالت انصاف نظرثانی و غور مکرر آرڈیننس پاکستان الائیڈ ہیلتھ پروفیشنلز کونسل کی تشکیل سمیت تین بل قومی اسمبلی میں پیش کئے ،پاکستان قومی جہاز رانی کارپوریشن (ترمیمی) بل 2021ئسمیت 9 بلز پر قائمہ کمیٹیوں کی رپورٹس قومی اسمبلی میں پیش کردی گئیں۔

 

 

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔