ایک لاکھ روپے ماہانہ کمانے والوں کو صرف 100 روپے ٹیکس ادا کرنا ہوگا

ایک لاکھ روپے ماہانہ کمانے والوں کو صرف 100 روپے ٹیکس ادا کرنا ہوگا
وفاقی حکومت نے مالی سال 2022-23ء کا بجٹ پیش کر دیا ہے اور اس حوالے سے سب سے زیادہ زیر بحث خبر تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس میں کٹوتی ہے۔

وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اپنی بجٹ تقریر میں کہا کہ اب سالانہ 6 لاکھ روپے سالانہ آمدنی کمانے والے افراد انکم ٹیکس جمع کرانے سے مستثنیٰ ہو گئے ہیں۔ جبکہ 12 لاکھ روپے تک کی سالانہ آمدنی والے افراد کو سالانہ 100 روپے کا معمولی ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔

وزیر خزانہ نے اپنی تقریر میں ٹیکس سلیب کے بارے میں تفصیلات نہیں بتائیں۔ تاہم کابینہ کے منظور کردہ فنانس بل کے مطابق انکم ٹیکس سلیب کی تعداد 12 سے کم کرکے 7 کر دی گئی ہے۔

کس نے کتنا انکم ٹیکس ادا کرنا ہے؟

پہلے سلیب میں وہ لوگ شامل ہیں جن کی تنخواہ 6 لاکھ روپے سالانہ تک ہے۔ ان پر کوئی انکم ٹیکس لاگو نہیں ہوتا۔

دوسرا سلیب ان لوگوں کا ہے جن کی سالانہ آمدنی 6 لاکھ سے زیادہ ہے لیکن 12 لاکھ تک ہے۔ ایسے لوگوں کو صرف 100 روپے سالانہ ٹیکس ادا کرنا ہوگا اور یہ انہیں ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوشش ہے۔

تیسرا سلیب ان لوگوں کے لیے ہے جن کی سالانہ آمدنی 12 لاکھ سے 24 لاکھ روپے تک ہے۔ 12 لاکھ روپے سے زیادہ کی آمدنی پر 7 فیصد کی مقررہ شرح لاگو ہوگی۔

چوتھا سلیب ان لوگوں کے لیے ہے جن کی سالانہ تنخواہ 24 لاکھ سے 36 لاکھ روپے تک ہے۔ انہیں 84 ہزار مقررہ اور 24 لاکھ سے زائد آمدنی پر 12.5 فیصد کی شرح سے ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔

پانچواں سلیب ان لوگوں کے لیے ہے جن کی سالانہ آمدنی 36 لاکھ سے 60 لاکھ روپے کے درمیان ہے۔ ان لوگوں کو اب 36 لاکھ سے زائد آمدنی پر 17.5 فیصد کی شرح سے دو لاکھ 34 ہزار فکسڈ ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔

پچھلے فنانس بل میں 60 لاکھ روپے سے زیادہ کمانے والوں کے لیے بھی یہی سلیب رکھا گیا تھا لیکن اس فنانس بل میں اسے تبدیل کر دیا گیا ہے۔

چھٹا سلیب ان لوگوں کے لیے ہے جن کی سالانہ آمدن 60 لاکھ سے ایک کروڑ 20 لاکھ ہے، جنہیں اب 6 لاکھ 54 ہزار روپے فکسڈ ٹیکس اور 60 لاکھ سے زائد آمدن پر 22.5 فیصد ٹیکس دینا ہوگا۔

ساتواں اور آخری سلیب ان لوگوں کے لیے ہے جن کی سالانہ آمدن 12 کروڑ 20 لاکھ سے زائد ہے، انہیں اب 20 لاکھ 4 ہزار فکسڈ ٹیکس اور 12 کروڑ 20 لاکھ سے زائد آمدن پر 32.5 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔

پاکستان میں عوام کی تنخواہ سے کتنا ٹیکس کاٹا جائے گا؟

اگر کسی کی ماہانہ آمدنی پچاس ہزار روپے ہے تو اسے کوئی انکم ٹیکس ادا نہیں کرنا پڑے گا۔ تاہم، اگر یہ آمدنی ایک لاکھ روپے ماہانہ تک ہے، تو ایک سال میں 100 روپے انکم ٹیکس کے طور پر ادا کرنا ہوں گے۔

اس سے پہلے 1.5 لاکھ روپے ماہانہ کمانے والے افراد کو 7500 روپے ماہانہ ٹیکس ادا کرنا پڑتا تھا۔ تاہم اب یہ رقم 3500 روپے ماہانہ ہوگی۔

جو لوگ ماہانہ 2 لاکھ روپے کماتے ہیں، انہیں پہلے مہینے میں 15 ہزار روپے ٹیکس دینا پڑتا تھا، اب یہ رقم کم ہو کر 7 ہزار روپے رہ جائے گی۔

ایسے افراد جن کی ماہانہ آمدن 2 لاکھ 50 ہزار روپے ہے، پہلے انہیں 23 ہزار 541 روپے ٹیکس ادا کرنا پڑتا تھا لیکن اب انہیں 13 ہزار 250 روپے ماہانہ انکم ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔

پہلے 3 لاکھ روپے ماہانہ کمانے والے افراد 32 ہزار 500 روپے ماہانہ انکم ٹیکس ادا کرتے تھے اور اب یہ رقم 13 ہزار روپے کم ہو جائے گی اور انہیں 19 ہزار 500 روپے ماہانہ ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔

اس سے پہلے 3.5 لاکھ روپے کمانے والوں کو ماہانہ 42,500 روپے ٹیکس ادا کرنا پڑتا تھا جو اب گھٹ کر 28,250 روپے رہ جائے گا۔

پہلے 4 لاکھ روپے ماہانہ کمانے والے 52 ہزار 500 روپے ماہانہ ٹیکس ادا کرتے تھے، اب یہ رقم کم ہو کر 37 ہزار روپے رہ جائے گی۔

انکم ٹیکس سلیب میں تبدیلی سے کم آمدنی والے لوگوں کو ریلیف ملا ہے۔ سلیب میں کمی دراصل آئی ایم ایف کی شرائط میں سے ایک تھی تاکہ زیادہ آمدنی والے افراد پر ٹیکس کو معقول بنایا جا سکے۔ اس وقت ملک میں جس قدر مہنگائی ہے، اس میں کم اجرت والے لوگوں کو کچھ ریلیف ملے گا۔ یہ ملک کے ٹیکس بیس کو بڑھانے کی طرف ایک قدم ہے، کیونکہ ٹیکس سلیب کی بالائی سطح کو بڑھا دیا گیا ہے۔

پرسنل ٹیکس کیا ہے؟

آئی ایم ایف کی جانب سے پرسنل ٹیکس میں اصلاحات کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب تنخواہ دار طبقے پر انکم ٹیکس کی شرح میں اضافہ ہے۔ پرسنل ٹیکس میں اصلاحات کا مطلب ہے کہ آئی ایم ایف زیادہ تنخواہ لینے والے افراد پر ٹیکس بڑھانا چاہتا ہے۔

خیال رہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے تنخواہ دار طبقے سے ٹیکس وصولی کا مطالبہ کوئی نیا نہیں بلکہ یہ مطالبہ پہلے بھی کیا جاتا رہا ہے تاہم پچھلی حکومت نے اس مطالبے کو تسلیم نہیں کیا تھا۔

آئی ایم ایف کی جانب سے تنخواہ دار طبقے سے 130 سے 150 ارب روپے اضافی وصول کرنے کا کہا گیا تھا تاہم بعد میں حکومت نے سیلز ٹیکس میں دی گئی چھوٹ ختم کرنے پر رضامندی ظاہر کرتے ہوئے یہ مطالبہ تسلیم نہیں کیا۔